ثابت کریں الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا ہم اڑا دیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تقرری حکومت اور اپوزیشن مل کر کرتے ہیں، ابھی تک کسی فریق نے اس نکتے پر بات ہی نہیں کی، الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا تو ثابت کریں، اتنی باریکیوں میں ہم ایسے جا رہے جیسے الیکشن کمیشن کے خلاف اپیل سن رہے ہوں، ہم مبینہ دھاندلی کے معاملے کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے، ثابت کریں الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا ہم اڑا دیں گے، یہ دکھانا ہوگا الیکشن کمیشن نے غیر آئینی کام کیا ہے پھر ہم اس میں مداخلت کریں۔ ہم نے یہ نہیں دیکھنا حق کس کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اگر سابق وزیر اعظم کی درخواست پر ایک سال کا وقت پارٹی انتخابات کے لئے نہ دیتا توشاید انتخابات ہوجاتے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا24 دسمبر 2023تک پی ٹی آئی لوگوں کوالہام ہواتھا کہ انہیں انتخابی نشان نہیں ملے گااوروہ آزاد الیکشن لڑیں گے۔ 2018میں بھی پی ٹی آئی کا پارٹی الیکشن نہیں ہوا پھر انتخابی نشان کیسے ملا، 2013میں پارٹی الیکشن ہوا تھا۔جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی مرضی کے احکامات جاری کررہا ہے ، ماضی میں اورپوزیشن تھی اوراب اورپوزیشن ہے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 51-1(d)کی ساری بنیاد ایک سیاسی جماعت کے وجود رکھنے کے حوالہ سے ہے تاہم اگر الیکشن کمیشن کسی فیصلہ کی غلط تشریح کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت کو ہی ختم کردیتا ہے تو پھر یہ سوال ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے، حساب کتاب بعد میں آئے گا، اس کیس میں سب بڑا بنیادی سوال الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بڑی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کااقدام ہے۔

جبکہ عدالت نے الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کر لیں کہ 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟جبکہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت سے پہلے اور بعد نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج  (منگل)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس سید منصور علی شاہ ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر فغان پر مشتمل 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل ، اسپیکر خیبر پختونخوااسمبلی، حکومت خیبر پختونخوااور پی ٹی آئی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالے سے دائر 10درخواستوں پر سماعت۔

کیس کی سماعت براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دکھائی گئی۔درخواستوں میںا لیکشن کمیشن آف پاکستان، شازیہ تہماش خان، ایمن جلیل جان، مہرسلطانہ اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ، کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ دوران سماعت پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ محمد حامد رضا، پی ٹی آئی رہنما سینیٹر شبلی فراز، حامد خان ایڈووکیٹ، کنول شوزب،فیصل جاوید خان، اوردیگر رہنما بھی موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ وہ آدھے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اصولی طور پر پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ 24دسمبر 2023ہونی چاہیئے تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جو طریقہ کار ہے اس میں اصل غلطی کس نے کی ہے۔، سرٹیفکیٹ نہیں ہو گاتو امیدوارآزا دہوگا۔ سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کاکوئی چیئرمین نہیں تھا اس لئے فراہم کردہ سرٹیفکیٹس غیر قانونی ہیں۔سکندر بشیر مہمند کا کہناتھا کہ بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل حاحبزادہ محمد حامد رضا خود کو سرٹیفیکیٹ جاری کرسکتے تھے جو کہ انہوں نے نہیں کیااور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن کے پاس پڑا تھا۔ جسٹس منیب اخترکاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن 22دسمبر2023کو اپنا اختیاراستعمال کرتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گیم کھیلا ہی نہیںگیا تویہ کہنا تھا کہ گیم کھیل لیا تویہ غیر مناسب بات ہے، الیکشن کمیشن اگر سابق وزیر اعظم کی درخواست پر ایک سال کا وقت پارٹی انتخابات کے لئے نہ دیتا توشاید انتخابات ہوجاتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا24 دسمبر 2023تک پی ٹی آئی لوگوں کوالہام ہواتھا کہ انہیں انتخابی نشان نہیں ملے گااوروہ آزاد الیکشن لڑیں گے۔ سکند بشیر مہمند کی جانب سے یہ کہنے پرکہ انہیں اُردو زبان درست نہیں آتی، جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہناتھا کہ زبان سیکھنے کے لئے نمل اسلام آباد بہترین ادارہ ہے۔

سکندر بشیر مہمندکاکہناتھا کہ کنول شوزب کی درخواست قابل سماعت نہیںاس لیے اسے خارج کیا جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ 84میں سے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سرٹیفیکیٹ برقرارکھڑارہا۔ اس پر سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ کسی کا بھی برقرارنہیں رہا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم واپس جاسکتے ہیں کہ جن کے کاغذات برقراررہے وہ پاکستان تحریک انصاف میں رہیں اور جو آزاد ارکان ہیں وہ تین دن میں کسی جماعت میںشامل ہوجائیںاور متناسب نمائندگی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی مرضی کے احکامات جاری کررہا ہے ، ماضی میں اورپوزیشن تھی اوراب اورپوزیشن ہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ آئندہ جب عدالت میں پیش ہوں گے تو اُردو زبان بولوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے بطور بینچ کے رکن کے ایک نوٹ ریکارڈ پر رکھا ہے اوراپنے سمجھنے کے لئے الیکشن کمیشن سے کچھ معلومات مانگی ہیں۔ اس پر سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ میں نے نوٹ نہیں دیکھا میں اسے چیک کروں گا۔ اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو ہدایت کی کہ وہ روسٹر پر آئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہرعلی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے پہلی سماعت پر آپ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنی پارٹی کے ڈکلیئریشن اور سرٹیفکیٹ جمع کیئے، آپ کا جواب مثبت میں تھا، میں نے کہا تھا کہ باقی امیدواروں نے بھی کیا، آپ نے کہا تھا سب نے کیا تاہم ابھی الیکشن کمیشن نے جوفارم فراہم کیااس میں آپ کا ڈکلیئریشن کا خانہ خالی ہے اورساتھ سرٹیفیکیٹ نہیں ہے، الیکشن کمیشن کی دستاویزات درست ہیں یاآپ کا پہلا بیان درست ہے۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم نے دو، دوفارم جمع کروائے تھے ایک آزاد اورایک بطور پی ٹی آئی امیدوار، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی والا فارم نہیں جمع کروایا، الیکشن کمیشن سے فارم 31منگوالیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آپ نے بطور آزاد امیدوار کیوں فارم جمع کروایا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ایک کاغذات نامزدگی پر الیکشن لڑنا ہے دوکا کیسے آگے چلتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک حلقہ کے لئے چار فارم جمع کروانے کی کیا وجہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کورنگ امیدوار بھی پارٹی کاہی ہوتا ہے آزاد تو نہیں ہوتا۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اکثر فارم چھپائے ہیں اورعدالت کو فراہم نہیںکیے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کوئی اوردلائل دینا چاہتا ہے یا ختم۔پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے۔ جمیعت علماء اسلام (ف)کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل کے دلائل اپنا لئے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاسینیٹر کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ اس کامطلب ہے الیکشن کمیشن نے ٹھیک کام کیا ہے۔ اس پر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا جی۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ غیر مسلم کو پارٹی میں نہ لینے کے حوالہ سے ہمارے منشور میں کچھ نہیں۔ چیف جسٹس کا کامران مرتضیٰ کا مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صیح والا منشور ہمیں دے دیں۔ (ن)لیگ کے وکیل نے پیش ہوکرتحریری دلائل جمع کروادیئے اور کہا کہ ان کے دلائل مخدوم علی خان کے دلائل سے ملتے جلتے ہیں۔جبکہ مدعا علیہ نمبر 9مولوی اقبال حیدر عدالت میںپیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیاآپ نے الیکشن لڑا تھا۔ چیف جسٹس کا مولوی اقبال حیدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم آپ کو نہیں سنیں گے، اگر خود درخواست گزار ہیںتو پھر کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں سارے کھلاڑی میدان میں ہیں، آپ میدان میں نہیں۔ چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ گزشتہ سماعت پر آپ کچھ کہہ رہے تھے بتادیجیئے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کاکہناتھا کہ میں عدالتی نوٹس پر بھی ہوں اور کے پی حکومت کی جانب سے بھی پیش ہورہا ہوں۔ شاہ فیصل اتمانخیل کا کہناتھا کہ وہ الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں۔جسٹس جما ل خان مندوخیل کاایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے پی حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں ، کیا کے پی میں انتخابات صیح نہیں ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ 2018میں بلوچستان عوامی پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی کیا اُس وقت پی ٹی آئی نے بات پارٹی کو خیبرپختونخوااسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشست الاٹ کرنے کے معاملے کو چیلنج کیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ باتیں کریں گے تو پھر سینیٹ کا الیکشن بھی کھل جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ 2018میں بھی پی ٹی آئی کا پارٹی الیکشن نہیں ہوا پھر انتخابی نشان کیسے ملا، 2013میں پارٹی الیکشن ہوا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے پہلے کوئی غلط کام کیا ہے تو کیا دوبارہ غلط کام کرے۔ چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کچھ بتائیں تاکہ میں کچھ لکھوں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے اپنا وقت اٹارنی جنرل کو دلائل کے لئے دے دیا۔ وقفہ سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیاکہ کیا وہ آج دلائل دیں گے یا کل۔ ا س پر اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ میں آج ہی دلائل دوںگا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مختصروقفہ کرکے واپس آرہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ 45منٹ دلائل دیں گے۔ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل میں کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں، خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں،17ویں ترمیم  کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں، متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کے لیے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستوں کے لیے2002 سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سارا مسئلہ شروع ہی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے پر ہوا۔ اس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس نکتے پر بعد میں جواب دوں گا، اصل نکتہ یہ ہے کہ کوئی مخصوص نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے بعد پہلا انتخاب 2018 میں ہوا تھا، آپ 2002 کی مثال دے رہے ہیں جو بہت پرانی بات ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا تعین ہوا لیکن انہیں دی نہیں گئیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے بغیر آزاد امیدوار مخصوص نشستیں نہیں مانگ سکتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر سنی اتحاد کونسل والے ارکان آزاد ہیں تو ان کی مخصوص نشستوں کا تعین کیوں کیا گیا؟ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو پارٹی ارکان سے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا، آزاد امیدوار مقررہ وقت میں کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے حساب سے انگریزی میں لکھی بات بہت آسان ہے، اتنے دن ہوگئے آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے ہوئے ہم مفروضوں پر کیوں چل رہے ہیں، اپنی سوچ اور نظریہ آئین پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مشکلات آپ کے بنائے ہوئے رولز پیدا کر رہے ہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا دماغ چیف جسٹس جیسا ہوتا تو پڑھتے ہی سمجھ جاتا، اتنی کتابیں اسی لیے پڑھ رہے ہیں کہ سمجھ آ جائے، کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ ایسا لکھنا چاہیے کہ میٹرک کا طالبعلم بھی سمجھ جائے، آئین اور قانون ججز اور وکلا ء کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں جس کا جو حق ہے اس کو ملنا چاہیے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر حق کی بات ہے تو اس کا مطلب ہے آپ آدھا فیصلہ کر چکے، ایک چیز کی بڑی تشویش ہے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے، یہ دکھانا ہوگا الیکشن کمیشن نے غیر آئینی کام کیا ہے پھر ہم اس میں مداخلت کریں، الیکشن کمیشن ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے، دھاندلی کی جب تک کوئی صحیح طریقے سے بات ہم تک نہیں آئے گی ہم کچھ نہیں کرنے والے، ہارنے والے کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا ہے، جیتنے والا کہتا ہے الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور ہارنے والا کہتا ہے غلط ہوا۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کی تقرری حکومت اور اپوزیشن مل کر کرتے ہیں، ابھی تک کسی فریق نے اس نکتے پر بات ہی نہیں کی، الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا تو ثابت کریں، اتنی باریکیوں میں ہم ایسے جا رہے جیسے الیکشن کمیشن کے خلاف اپیل سن رہے ہوں، ہم مبینہ دھاندلی کے معاملے کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے، ثابت کریں الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا ہم اڑا دیں گے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ حق کس بنیاد پر ملے گا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا حق کس کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے سوال کی اکہ کیا آپ 2018 میں مخصوص نشستوں کی تقسیم رولز کی روشنی میں پیش کر سکتے ہیں؟ عدالت کے سامنے غیر متنازع حقائق ہوں گے جس سے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ نشستوں کی جو تقسیم آپ ہمیں دیں گے وہ حکومت کی ہوگی، نشستوں کے تعین کا کام الیکشن کمیشن کا ہے حکومت کا نہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کل تک 2018 کی نشستوں اور سنی اتحاد کے ہوتے ہوئے نشستوں کا تعین کر سکتے ہیں؟ چیف جسٹس کے بقول آپ بہترین ادارہ ہیں آپ کے لیے کیا مسئلہ ہے؟جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51-1(d)کی ساری بنیاد ایک سیاسی جماعت کے وجود رکھنے کے حوالہ سے ہے تاہم اگر الیکشن کمیشن کسی فیصلہ کی غلط تشریح کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت کو ہی ختم کردیتا ہے تو پھر یہ سوال ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے، حساب کتاب بعد میں آئے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سب بڑا بنیادی سوال الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بڑی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کااقدام ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کر لیں کہ 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟جبکہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت سے پہلے اور بعد نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل (منگل)کے روز جوڈیشل کمیشن کااجلاس ہے اس لئے ہم کیس کی سماعت ڈیڑھ بجے تک ختم کریں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وہ کل اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔