عزم استحکام 22 واں ملٹری آپریشن ہوگا جسے مسترد کرتا ہوں، مشتاق احمد خان


پشاور(صباح نیوز)جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ عزم استحکام 22 واں ملٹری آپریشن ہوگا جسے مسترد کرتا ہوں ،پارلیمنٹ موجود ہے اسے بائی پاس کرکے ایپکس کمیٹی سے آپریشن کی منظوری کیوں لی گئی؟ اسرائیل امریکی تعاون سے انسانیت کے خلاف معصوموں کا قتل عام کر رہا ہے۔

سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے پریس کلب پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 23 نومبر 2023 سے ہماری سیو غزہ کی تحریک چل رہی ہے اور غزہ میں جنگ کو 9 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے امریکی تعاون سے 16 ہزار بچے شہیدکردیئے  اور عید پر 17 ہزار بچے ایسے تھے جن کا کوئی موجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں ایک ہزار 300 اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، ہسپتال سے اٹھا کر مریضوں کو شہید کیا گیا جبکہ 3 ہزار 400 ایسے واقعات ہوئے جہاں کوئی نہیں بچا۔اسرائیل امریکی تعاون سے انسانیت کے خلاف معصوموں کا قتل عام کر رہا ہے، اسرائیل نے درندگی کے ساتھ قتل عام شروع کیا ہوا ہے اور فلسطینیوں پر فاسفورس بموں کا استعمال کیا گیا جو دو ایٹم بم کے برابر تباہ کن ہے۔سابق سینیٹر نے مزید کہا کہ او آئی سی بھی اسرائیل کی خاموش حمایت کر رہا ہے، امت کے حکمران اور جرنیل آواز اٹھاتے تو آج اتنا قتل عام نہ ہوتا۔

انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا کہ مصری حکومت کے ساتھ مل کر رفح بارڈر پر فیلڈ ہسپتال قائم کیا جائے اور القدس کی آزادی کے لیے سیو غزہ کمپئین جاری رہے گی۔انہوں نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ 22 واں ملٹری آپریشن ہوگا جسے مسترد کرتا ہوں اور سوال کیا کہ جب پارلیمنٹ موجود ہے تو انہیں بائی پاس کرکے ایپکس کمیٹی سے آپریشن کی منظوری کیوں لی گئی؟۔ان کا کہنا تھا کہ منیر اکرم کا افغانستان سے متعلق بیان قابل مذمت ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھی پڑوسی ملک افغانستان کے اندر کارروائی سے متعلق بیان مناسب نہیں لہذا حکومت مذاکرات کا راستہ اپنائے۔

مشتاق احمد خان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے کیونکہ بھائی آپس میں لڑ نہیں سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے امن معاہدے بھی کیے لیکن امن قائم نہ ہوا، معاہدوں اور آپریشن کو عوام کی تائید حاصل نہیں تھی، باڑ لگانے کے بعد دہشت گردی بڑھ گئی کیونکہ مسئلہ اندر ہے۔انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں آج بھی بارودی سرنگیں موجود ہیں،خیبر پختونخوا میں مزیدکسی آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔