کے پی میں بجلی کے گرڈ اسٹیشن پر حملے … تحریر : مزمل سہروردی


وزیر اعلی کے پی علی امین گنڈا پور عید کے موقع پر اپنے آبائی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک گرڈ اسٹیشن پر گئے اور انھوں نے وہاں گرڈ اسٹیشن کے اندر بند بجلی کو بحال کیا۔ انھوں نے گرڈ اسٹیشن میں لوڈشیڈنگ کا شیڈیول بھی خود طے کیا۔

علی امین گنڈا پور کے مطابق انھیں کے پی میں بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ قبول ہے۔ تاہم اگر لوڈ شیڈنگ بارہ گھنٹے سے زائد کی جائے گی تو وہ اب خود ایکشن لیں گے، گرڈ اسٹیشن کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔

اسی طرح انھوں نے اپنی جماعت کے تمام ارکان پارلیمان کو بھی کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں گرڈ اسٹیشن پر جائیں اور وہاں کنٹرول سنبھال لیں۔ اس سے پہلے بھی گنڈا پورکی حکومت میں ارکان اسمبلی کی جانب سے گرڈ اسٹیشن پر قبضہ کے واقعات ہوئے ہیں اور ارکان اسمبلی نے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند بجلی زبردستی بحال کی ہے۔

ویسے تو میں ذاتی طورپر لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہوں۔ بجلی ایک بنیادی ضرورت زندگی ہے۔ کسی بھی شہری کو بجلی کی بلا تعطل فراہمی ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔اسے کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پھر جب ہمارے پاس بجلی موجود ہے اور بجلی کی موجودگی کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو اور بھی بری ہے۔

اس لیے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کے پی میں لمبی لمبی لوڈ شیڈنگ اس لیے نہیں ہو رہی کہ پاکستان کے پاس بجلی نہیں ہے۔ ایک دورمیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اس لیے ہوتی تھی کہ پاکستان کے پاس بجلی ہی نہیں تھی۔ لیکن آج یہ صورتحال نہیں ہے۔ آج بجلی موجود ہے لیکن ہم پھر بھی لوڈ شیڈنگ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ زیادہ افسوسناک صورتحال ہے۔

اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کے پی میں لمبی لمبی کئی کئی گھنٹوں بلکہ ایک ایک دن میں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے۔ ویسے بارہ گھنٹے پر تو علی امین گنڈاپور کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ان کی اور وفاق کے درمیان دو تین گھنٹوں کی ہی لڑائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ گنڈا پور کہہ رہے ہیں کہ میں کے پی میں ایک منٹ کی بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونے دوں گا۔ انھیں بھی پتہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے۔ وہ صرف سیاست کر رہے ہیں۔ میری رائے میں وہ اپنے لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ لوڈ شیڈنگ ختم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

بہرحال گنڈا پور کے ایکشن کے بعد وفاقی حکومت نے ٹانک گرڈ اسٹیشن کی بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن اسلام آباد سے بند کر دی۔ ٹانک بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل ضلع ہے جہاں گزشتہ دنوں وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے گرڈ اسٹیشن پر جا کر بجلی بحال کی تھی۔

اس طرح وفاق نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی صوبائی وزرا اور ایم پی اے حضرات کو بتایا ہے کہ اگر گرڈ اسٹیشن میں جا کر وفاق چاہے گا تو نیشنل گرڈ اسلام آباد سے بھی وزیراعلی وزرا اور ایم پی اے صاحبان بجلی بند کر دے گا۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ اگر کے پی کی حکومت گرڈ اسٹیشن پر قبضہ زبردستی کر لے تو وفاق کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا وفاق نیشنل گرڈ سے بھی بجلی بند کر سکتی ہے۔ مقدمات بھی درج کرائے جا سکتے ہیں۔

کے پی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ صرف اس لیے ہے کہ وہاں بجلی کی چوری زیادہ ہے۔ کے پی کے بعض علاقوں اور شہروں میں اسی نوے فیصد تک بجلی چوری ہوتی ہے۔ اس بجلی چوری کی وجہ سے پاکستان سرکلر ڈیٹ کے ایک ایسے کنویں میں پھنس گیا ہے۔ جہاں سے نکلنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کے پی میں تحریک انصاف کے اقتدار کے گیارہ سال میں سرکاری سطح پر بجلی چوری کی سرپرستی کی گئی ہے۔

ووٹ بینک کے چکر میں بجلی چوری کو لوگوں کے ذہنوں میں جائز بنا دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے دور میں جان بوجھ کر خیبرپختونخوا میں بجلی چوری کے ایشو کو پس پشت ڈالے رکھا گیا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کے دور حکومت میں کے پی میں بجلی چوری کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔

مرکز اور صوبے دونوں جگہ کے پی کی حکومت تھی اور اس معاملہ کو حل کرنے کی بجائے بڑھایا گیا اور مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ اس سے پہلے جب میاں نواز شریف کی حکومت تھی تب بھی کے پی میں جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی تھی وہاں لوڈشیڈنگ کا معاملہ سامنے آتا تھا اور تب بھی تحریک انصاف کی کے پی میں حکومت تھی۔ پرویز خٹک وزیر اعلی تھے تب بھی تحریک انصاف کے پی میں بجلی چوری پر وفاق سے تعاون کر نے سے انکار کرتی تھی۔ اس لیے تحریک انصاف کی کے پی سیاست میں بجلی چوری کی کھلی چھوٹ شامل ہے۔ اور وہ کبھی اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں رہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کے بیانات بہت سخت ہیں۔ ان سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ لیکن پرویز خٹک کا رویہ بھی یہی تھا کہ وہ بجلی چوری پر کوئی ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر محمود خان کا بھی یہی رویہ تھا لیکن تب تو وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی اپنی حکومت تھی اور اب علی امین گنڈا پور کی بھی یہی پالیسی ہے۔ اس لیے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ شائد اس دفعہ وفاق کے پاس بھی نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ بجلی کا گردشی قرضہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب نرمی کی ہی نہیں جا سکتی۔ اس لیے محاذ آرائی میں شدت نظر آرہی ہے۔ گنڈا پور اپنے ووٹ بینک کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اور وفاق بھی ملک کی بقا کی خاطر مجبور ہیں۔

بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ کے پی میں حکومت کی جانب سے جس طرح سرکاری سرپرستی میں گرڈ اسٹیشن پر حملے شروع کیے گئے ہیں، ان پر وفاق خاموش کیسے رہ سکتا ہے۔ اسے ایک صوبے کی جانب سے وفاق پر حملے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ کیا کوئی صوبائی حکومت اپنے صوبے میں موجود وفاق کے اثاثوں پر حملہ کر سکتی ہے کیا یہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان جنگ کے مترادف نہیں ایسے تو کل کوئی بھی صوبائی حکومت اپنے صوبے میں موجود وفاقی بینک پر قبضہ کر لے گی اور کہے گی کہ ہمیں اس بینک سے یہ شکایات ہیں۔ ہم نے قبضہ کر لیا، پھر کسی کو پٹرول کی قیمت پسند نہیں ہوگی تو وہ صوبے میں موجود پٹرول کے ذخائر پر قبضہ کر لے گا کوئی گیس کے ذخائر پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ملک میں کوئی نظام حکومت ہی نہیں رہے گا۔ صوبے وفاق کے اثاثوں پر حملہ کریں گے اور وفاق صوبوں کے اثاثوں پر حملہ شرو ع کر دے گا۔ اس طرح پاکستان کا بطور مملکت وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔

اس لیے میری رائے میں گنڈا پور کی حکومت کے اس عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں سوال ہے کہ وفاق کیا کر سکتا ہے نیشنل گرڈ سے بجلی بند کرنا بھی کمزوری کی نشانی ہے۔ پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ گرڈ اسٹیشن پر کوئی قبضہ نہ کر سکے۔

حکومت کی رٹ قائم رکھنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ کے پی کے گرڈ اسٹیشن کی حفاظت کے لیے رینجرز ایف سی اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کو تعینات کر دیا جائے تاکہ کسی کو گرڈ اسٹیشن میں گھسنے کی جرات نہ ہو۔ یہ اس لیے نا گزیر ہے کہ پولیس گرڈ اسٹیشن کی حفاظت میں ناکام ہو رہی ہے۔

وفاق کو چاہیے کہ جس علاقہ کے گرڈ اسٹیشن پر حملہ ہو اور پولیس کوئی کارروائی نہ کرے وہاں کے اعلی پولیس افسران کے خلاف اسلام آباد میں نا اہلی کی انکوائری کر کے انھیں سخت سزا دی جائے۔ یہ سب پولیس افسران وفاق کے ملازم ہیں۔ انھیں نوکری سے نکالنے اور سزا کا اختیار بھی وفاق کے پاس ہے۔ اس لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ نظام حکومت ختم ہو جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس