مودی کی تیسری ٹرم اور پاکستان : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


بھارتی انتخابات کے نتیجے میں نریندرا مودی تیسری بار بھارت کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کے انتخابات کا ہمارے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ وہاں بیلٹ کا تقدس مجروح نہیں کیا گیا۔ اگرچہ مودی سرکار نے کیجریوال سمیت کئی سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند رکھا، وادی کشمیر کے حریت پسند راہنما تو برسوں سے پسِِ دیوارِ زنداں ہیں مگر اپوزیشن نے دھاندلی کے لمبے چوڑے الزام نہیں لگائے اور پاکستان کے برعکس بھارت کے الیکشن کمیشن کا دامن جانبداری کے الزامات سے آلودہ نہیں کیا گیا۔

پاکستان میں پہلی بار ایک جج کے بجائے سول سرونٹ کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے، ان پر الزام لگا کہ وہ اس منصب کے تقاضے پورے نہ کرسکے۔ بھارت میں نتائج اگرچہ سیاسی جوتشیوں کے تخمینوں کے مطابق نہیں ہیں مگر پھر بھی مودی کی جماعت نے241 نشستیں جیتی ہیں جو تمام مخالف جماعتوں کی مشترکہ سیٹوں (232) سے بھی زیادہ ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی پچھلے الیکشن کی نسبت 65 نشستوں سے محروم ہوئی ہے اور مودی کی مقبولیت خاصی کم ہوئی ہے۔ اپوزیشن اتحاد انڈیا نے 100 سیٹیں زیادہ جیتی ہیں۔

باخبر مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی ترقی اور جی ڈی پی گروتھ وغیرہ سے چند خاندان یا افراد تو مستفیض ہوئے تھے مگر عام آدمی اسی طرح بھوک، غربت، بیماری اور بیروزگاری کا شکار رہا۔ مودی علی الاعلان ہندوتوا کے ایجنڈے پر گامزن رہا، اقلیتوں، خصوصا مسلمانوں کو اس نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اسے ہندووں کا سو فیصد ووٹ ملے گا مگر انھوں نے غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل کی وجہ سے اسے ووٹ نہیں دیے۔

جس سے اسے پارلیمنٹ میں اکثریت بھی حاصل نہیں ہوسکی، مگر بھارت کی بڑی آبادی نے مودی کی نفرت کی سیاست اور مسلم کش پالیسیوں کی توثیق کردی ہے، وہ بے حد تشویشناک ہے۔ مودی کے ہندوتوا نظرئیے نے بھارتی معاشرے کو تقسیم کرکے سخت نقصان پہنچایا ہے مگر خارجہ محاذ پر اس نے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

مڈل ایسٹ میں اثر ونفوذ حاصل کرنا اور اکثر عرب ملکوں کے پاکستان سے زیادہ قریب ہوجانا، ایران کے علاوہ افغانستان کے طالبان سے دوستانہ مراسم پیدا کرلینا، چین سے زیادہ ویت نام کا قرب حاصل کرنا، سارک ممالک کو اپنا مطیع وفرمانبردار بنالینا، امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ پن کے قریب پہنچادینا اس کی بڑی کامیابیاں ہیں، اس کا حامی میڈیا اسے ایک بے لوث انڈین نیشنلسٹ اور ہندوستان کی عظمت کے نقیب کے طور پر پروجیکٹ کرتا رہا ہے، جس کا اسے بہت فائدہ ہوا ہے۔

اگر کوئی تجزیہ نگار یہ سمجھتا ہے کہ توقع سے کم سیٹیں لے کر مودی اینڈ کمپنی کی مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں سوچ تبدیل ہوجائے گی اور وہ فورا دوستی کا خواہشمند ہوجائے گا تو یہ اس کی معصومیت اور حقائق سے لاعلمی ہے۔ نریندرا مودی اور اس کے قریب ترین ساتھیوں امیت شاہ اور یوگی وغیرہ کا جنم ہی نفرت کے بیج سے ہوا ہے اور ان کی تربیت اور شخصیت کی تشکیل آر ایس ایس کی تربیت گاہوں اور مسلم دشمنی کے ماحول میں ہوئی ہے۔

مودی نے گجرات کا وزیراعلی ہوتے ہوئے اپنے صوبے کی اہم ترین مسلم کمیونٹی کو تحفظ دینے کے بجائے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرادیا تھا۔ مگر آج تک اس کے منہ سے ندامت کا ایک لفظ تک نہیں نکلا، اس لیے کہ وہ ہندوتوا کا ایسا انتہا پسند پیروکار ہے جس کے نزدیک ہندوستان میں غیر ہندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ غیرجانبدار اور لبرل رائٹر ارون دھتی رائے کے بقول بی جے پی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے باعث آج ہندوستان کے مسلمان سماجی اور سیاسی طور پر شودروں اور دلتوں سے بھی نیچے چلے گئے ہیں، مسلم نام کے کسی امیدوار کو ادنی سی نوکری بھی نہیں ملتی۔

اس لیے مسلمانوں کی نئی نسل اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کھوچکی ہے، اور مسلم نوجوان زندہ رہنے کے لیے اپنے اسلامی نام تبدیل کرکے ہندوں والے نام رکھ رہے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ مودی نے وہ کردیا ہے جو ستر سالوں میں کوئی اور بھارتی حکمران کرنے کی جرات نہ کرسکا، عملی طور پر وادی کشمیر کے مسلمان ایک قبرستان میں رہ رہے ہیں جو ہر قسم کی مواصلاتی سہولت سے محروم ہے۔ مودی نے انتہائی سفاکی سے کشمیر کے مسلمان نوجوانوں کو چن چن کر قتل کرادیا ہے۔ مودی پاکستان کا انتہائی توہین آمیز لہجے میں ذکر کرتا ہے۔

جب یہاں سے تجارت شروع کرنے کی بات ہوئی تو اس نے بڑے متکبرانہ انداز میں اسے مسترد کردیا۔ چند سال پہلے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے جذبہ خیرسگالی کے تحت نریندرا مودی کو اپنی نواسی کی شادی میں مدعو کرلیا، مودی اس کا ذکر بھی تضحیک آمیز انداز میں کرتا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کی تضحیک کرنے یا نظرانداز کرنے کا سلسلہ اس لیے شروع ہوا ہے کہ ہمارا اپنا ہاس inorder نہیں ہے۔ ہم معاشی اور سیاسی استحکام سے محروم ہوگئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت تمام معاملات طے کرنے کا سب سے بہترین موقع وہ تھا جب پاکستان نے 1998میں ایٹمی قوت بننے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت دنیا دونوں ملکوں کو برابری کی سطح پر ٹریٹ کرنے لگی تھی۔

اس کے فورا بعد بی جے بی کا وزیراعظم واجپائی لاہور آیا اور خود مینارِ پاکستان پر گیا اور وہاں اس نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، اب ہم آپس میں کبھی جنگ نہیں کریں گے۔ اس وقت کشمیر پر بھی پاک بھارت خفیہ مذاکرات میں بڑی اہم پیش رفت ہوچکی تھی مگر جنرل مشرف نے کارگل کا misadventure کرکے سب کچھ برباد کردیا۔ مگر ان کا کوئی احتساب نہ ہوا۔ مگر اب بدقسمتی سے پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ جو ہماری معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کو بھی ساتھ ہی بہا لے گیا ہے۔

دوسرا یہ کہ بھارت کا لیڈر اب واجپائی نہیں نریندرا مودی ہے جس کی سوچ، نظریہ، اور ایجنڈا بڑا واضح ہے۔ اس پس منظر میں بھارتی وزیراعظم کے نام پاکستان کے وزیراعظم کا ایک سطری روایتی سا پیغام تو ٹھیک تھا کہ یہ سفارتی ضرورت تھی، مگر مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کی طرف سے یہ کہنا کہ آپ کی شخصیت پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے مناسب نہیں تھا۔ نوازشریف نے یہ بیان خطے میں امن بحال کرنے کے لیے نیک نیتی سے دیا ہوگا مگر یہ بے فائدہ ہوگا اس لیے نہ دیا جاتا تو بہتر تھا۔ اس سے پاکستان کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان جھک کر ہندوستان سے امن کی بھیک مانگ رہا ہے۔

سو سال پہلے جب ہندوستان کے مسلمانوں کا وفد ترک خلافت کی بحالی کی درخواست لے کر برطانوی حکومت سے ملنے لندن جانے لگا تو جدید مسلم تاریخ کے سب سے بڑے شاعر، فلسفی اور پاکستان کے روحانی باپ علامہ اقبال نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ خلافت یا حکومت بزورِ شمشیر لی جاتی ہے، یہ بھیک میں نہیں ملتی۔ مسلم لیگ اقبال اور قائد کی جماعت ہے، مسلم لیگ کی لیڈر شپ کا فرض ہے کہ بانیانِ پاکستان کے نظریات کی پیروی اور تحفظ کریں اور ان سے انحراف نہ کریں۔

مسلم لیگ کی پوری قیادت کو برِصغیر میں دوقومی نظرئیے کی اٹھان، 1930کے علامہ اقبال کے صدارتی خطبے، 1940 کی قائداعظم کی تقریر اور تحریکِ پاکستان کا پوری تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے۔ انھیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ مودی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کے پختہ نظریات ایسے پیغامات سے تبدیل نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ مسلمانوں اور پاکستان کو نقصان پہنچانا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے۔ اس نے اپنی 75 رکنی کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں رکھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کریں۔ ہم اپنی انائیں اور نفرتیں ملک کی سلامتی پر قربان کردیں اور متحد ہوکر ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے بند دروازے کھولیں۔

اس کے لیے ہم اپنے youth bulge کو پوری طرح بروئے کار لائیں۔ اگر ہم یوتھ کو مطلوبہ ہنر سے بہرہ ور کردیں تو وہ ہمارے لیے تیل سے بڑا خزانہ ثابت ہوگا۔ جب ہم اپنے پاں پر کھڑے ہوجائیں گے تو کوئی دشمن ملک ہماری توہین کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور یہ ہم 1998 میں اچھی طرح دیکھ چکے ہیں۔ کسی سیاسی یا عسکری لیڈر کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے پاکستان کی کمزوری یا توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ غیرت، مومن کی تلوار بھی ہے اور ڈھال بھی۔ اس کے پاس دولت یا وسائل کی کمی بھی ہو تب بھی وہ اپنی عزتِ نفس کو کبھی پامال نہیں ہونے دیتا۔ ھمارے شاعر نے برسوں پہلے مسلمان لیڈروں سے کہاتھا کہ غیرت، فقیری میں بھی شہنشاہی دلادیتی ہے۔

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس