اسلام آباد(صباح نیوز) وفاقی حکومت دارلحکومت میں نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے رحجان سے روکنے کیلئے پہلا ماڈل متعارف کرا رہی ہے، اگر دوکانوں سے سگریٹ ریکس ہٹا دیئے جائیں تو انسداد تمباکو نوشی میں مدد مل سکتی ہے۔ حکومت رواں بجٹ میں تمباکو کی مصنوعات پر 30 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر وسیم آئی جنجوعہ نے تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام بچوں کو تمباکو سے بچانے کے موضوع پر ایک خصوصی مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت تمباکو کی مصنوعات کو فروغ دینے والے اشتہارات کے ذریعے گمراہ کن ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تمباکو کی صنعت تمباکو کی تشہیرکیلئے 7.62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے عوام کو تمباکو نوشی کی طرف راغب کرنیکے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہیلتھ سنڈیکیٹ کے سی ای او ڈاکٹر منہاج السراج نے کہا کہ نوعمر بچوں کی ایک بڑی تعداد تمباکو کی صنعت میں مزدوری سے جڑی ہوئی ہے ۔ تمباکو کی پروسیسنگ کے دوران خطرناک کیمیکلز کی زد میں آنے سے ان میں صحت کوسنگین خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت سے بچوں کا تحفظ کھیتوں سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایس آر او 2024 پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ تمباکو کی مصنوعات کی آن لائن فروخت اس وقت ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس پر قابو نہیں پایا جا رہا ۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو نوشی کے رحجان میں کمی کیلئے مساجد میں آئمہ حضرات سے بھی رابطہ کیا جانا چاہئے۔ محمد آفتاب خان نے کہا کہ وفاقی حکومت دارلحکومت میں نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے رحجان سے روکنے کیلئے پہلا ماڈل متعارف کرا رہی ہے اور انے والے بجٹ میں تمباکو کی مصنوعات پر 30 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) کے عبدالرحمٰن نے کہا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کے بغیر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کی روک تھام میں کوئی خاطر خواہ نتائج ممکن نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سماجی رابطے کے دیگر ذرائع تمباکو نوشی کی وجہ سے نوجوانوں کو صحت کو لاحق خطرات کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہیونیورسٹیوں کو اپنے احاطے میں تمباکو نوشی کے خلاف نرمی برتنے سے گریز کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ تمباکو کا سب سے زیادہ استعمال تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جسے کاروبار کی بندش جیسی سخت سزاؤں کے ذریعے منظم کیا جاسکتا ہے۔ٹوبیکو کنٹرول کی ڈاکٹر آمنہ خان نے کہا کہ عام طور پر ہر 3 میں سے ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے مر جاتا ہے جو تمباکو کا استعمال یا تمباکو نوشی ترک نہیں کرتا جبکہ پاکستان میں 6 سے 15 سال کی عمر کے 1200 بچے روزانہ تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ جو خطرے کی گھنٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے تحفظ کے لئے سنگل سگریٹ کی دستیابی، اشتہارات اور روک تھام کو نفاذ، پالیسی اور آگاہی کی کوششوں میں اعلی ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہپالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت اہم ہے تاکہ ایسے پالیسی اقدامات وضع کیے جا سکیں جو زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لئے زمینی حقائق کے مطابق ہوں۔پی این اے ایچ کے سیکرٹری جنرل ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ تمباکو نوشی کے خطرے اور دیگر مسائل کے خلاف جنگ میں چیلنجوں اور بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ردعمل اہم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آگاہی اور وکالت ایک مہنگا اور وقت طلب کام ہے جسے بچوں میں تمباکو نوشی اور تمباکو کے استعمال پر جرمانے میں اضافے کے آپشن سے تبدیل کیا جاسکتا ہے جس سے زیادہ حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ خرم ہاشمی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس تمباکو کے عالمی دن کے موقع پر ایک انتہائی ضروری بحث تھی جس نے ماہرین کو ان کی بصیرت کے لئے اکٹھا کرنے میں مدد کی ۔