اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ہمارے تحقیقاتی ادارے کسی کیس کی اصل کہانی پر کام کریں توزیادہ بہتر ہوگا، جھوٹے گواہوں کو بنانے کی کوشش میں کیس خراب ہوتا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات نہیں چلائے جاسکتے حالانکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز فوجداری مقدمات چلاسکتے ہیں۔ ہم مفرور کونہیں بلکہ قانون کودیکھیں گے۔اگر ہائی کورٹ مجرم کی سزابڑھائے گی توپھر لازماً مجرم کو نوٹس دے گی ، مجرم خود پیش ہویاوکیل کے زریعہ پیش ہویہ اس کی مرضی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز مختلف فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے آصف محمودکی جانب سے ریاست پاکستان جبکہ مسمات پھلن بی بی کی جانب سے آصف محمود اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوںپر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے عمرقید کی سزا کوکالعدم قراردینے جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔فریقین کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔عدالت نے دونوں درخواستیںخارج کریں۔اس موقع ڈاکٹر بابر اعوان کا جسٹس جمال خان مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے فوجداری مقدمات میں آپ کے سامنے پیش ہوتے تقریبا4سال ہو گئے ہیں تاہم آج پہلی مرتبہ جسٹس نعیم اخترافغان کے سامنے پیش ہورہا ہوں۔
ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سمجھا جارہاتھا کہ فوجداری مقدمات کی سماعت کے حوالہ سے جسٹس (ر)منظوراحمد ملک اور جسٹس (ر)سردارطارق مسعو کی ریٹائرمنٹ کے بعدسپریم کورٹ میں مسائل کاسامنا ہے تاہم جسٹس نعیم اخترافغان ایک اچھا اضافہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات نہیں چلائے جاسکتے حالانکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز فوجداری مقدمات چلاسکتے ہیں۔ بینچ نے سرفرازاحمد کی جانب منشیات برآمدگی کیس میں عمر قید کی سزا کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ ملزم سے 146کلو گرام منشیات برآمد ہوئی جس میں سے 1کلو350گرام منشیات تجزیہ کے قلات سے کوئٹہ بھجوائی گئی تھی۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہناتھا کہ واقعہ صبح 3بجکر20منٹ کا ہے اور ایف آئی آر 9بجے کاٹی گئی۔عدالت نے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے رہائی کاحکم دے دیا۔جبکہ بینچ نے نعمان منصورالمعروف نومی کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے توسط سے ریاست پاکستان اورمسمات زینب خٹک کی جانب سے نعمان منصور المعروف نومی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں عمر قید کی سزاکالعدم قراردینے اور عمرقید کو سزائے موت میںتبدیل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔جسٹس نعیم اخترافغان کا خاتون درخواست گزار کے وکیل راجہ محمد شفاعت خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کروانے آئے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ قتل امد میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302میں اے، بی یاسی میں سی کسی ایک میں ہی سزا ہوگی، جب اس حوالہ سے قانون میں تبدیلی ہو گی تواس کو بعد میں دیکھیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر ہائی کورٹ اپیل کونظرثانی میں تبدیل کررہی ہے تو پھر ملزم کو الگ نوٹس جاری کرنا چاہیئے تھا،ذاتی طور پر نوٹس دینا ضرور ی ہے، یہ بعد کا مسئلہ ہے کہ مجرم خود پیش ہویاوکیل کے زریعہ پیش ہو۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ سزابڑھانے کے لئے ملزم کونوٹس دینا ضروری ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بریت کے خلاف اپیل کے طور پر معاملہ غور کے لئے ہائی کورٹ کو بھجواتے ہیں۔ وکیل راجہ شفاعت خان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو معاملہ واپس بھجوادیں وہ اپنے عمل کودرست کردے۔ مجزم کے وکیل خالد مسعود سندھو کاکہنا تھا کہ اس کے مئوکل کو ٹ ٹرائل کورٹ سے 14سال قید کی سزاہوئی تاہم ہائی کورٹ کی جانب سے عمر قید میں تبدیل کرنے کے بعد 17سال سے زائد سزابھگت لی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرارہوگاتوٹرائل کورٹ کا فیصلہ خودبخود بحال ہوجائے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہم مفرور کونہیںبلکہ قانون کودیکھیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہائی کورٹ نوٹس کے بعد سب کوسن کردوبارہ فیصلہ کرے۔راجہ شفاعت خان کاکہنا تھا کہ ہم سزامیں اضافہ کے لئے سپریم کورٹ آئے ہیں، ہائی کورٹ نے سزابڑھا کر 25سال کردی اور ہم سپریم کورٹ سزائے موت کے لئے آئے ہیں۔درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ مجرم پہلے بھی مفرور رہ چکا ہے جبکہ دوشریک ملزمان بھی مفرور ہیں اس لئے مجرم کورہا کرنے کی بجائے ہائی کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ مخصوص وقت کے اندر کیس کا فیصلہ کرے۔عدالت نے درخواستں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے معاملہ دوبارہ سماعت کے لئے ہائی کورٹ کو بھجوادیا۔عدالت نے قراردیا ہے کہ ہمارا حکم ملنے کے بعد ہائی کورٹ 30روز کے اندر اپیل اور نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ کرے۔