ہم حقائق کیسے دیکھیں گے، تکنیکی باتیں نہیں بلکہ سپریم کورٹ قانونی باتیں دیکھے گی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ ہم حقائق کیسے دیکھیں گے، تکنیکی باتیں نہیں بلکہ سپریم کورٹ قانونی باتیں دیکھے گی۔ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت متعلقہ فورم دستیا ب ہوتوہائی کورٹ میں رٹ دائر نہیں کرسکتے۔کیسز کا فیصلہ وکیل کی وجہ سے نہیں بلکہ پارٹیز کی وجہ سے ہوتاہے۔ وکیل بنیادی حقائق بھی کاغذ کے ٹکڑے پر نہیں لکھتے ۔جبکہ عدالت نے پارکو کی جانب سے 36ملازمین کو نوکری سے نکالے جانے کے کیس میں حکم دیا ہے کہ پارکو اور انسٹا کلیئر سچائی پر مبنی مشترکہ جواب جمع کروائیں جس سے معاملہ واضح ہوسکتا ہے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ دوہفتے میں درخواست گزار جواب جمع کروائیں اور مدعا علیحان اگر جواب پڑھ کر کوئی جواب دینا چاہیں تووہ مزید دوہفتے میں ایسا کرسکتے ہیں اور ایک ماہ بعد کیس مزید سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا۔جبکہ عدالت نے حکم دیا کہ انسٹا کلیئر یہ تفصیلات بھی فراہم کرے کہ پارکو کے علاوہ کتنی کمپنیوں کو آئوٹ سورس کیا ہوا ہے اورسروس فراہم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔

بینچ نے پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ کارپوریٹ ہیڈکوارٹرز ، کراچی اورایم ایس انسٹا کلیئر (پرائیویٹ)لمیٹڈ کراچی کی جانب سے محمد منور ممتاز، محمد ظفر نذیر، محمد عرفان، محمد افضل ممتاز، مظہر حسین، فاروق الرحمان خلیل، ملک جمعہ طارق، طارق احمد ، امیر شہزاد اوردیگر کے خلاف ملازمتوں سے نکالے جانے کے معاملہ پر دائر 72درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے شاہد انورباجوہ، بیرسٹرخالد جاوید خان اوردیگر وکلاء پیش ہوئے جبکہ مدع علیحان کی جانب سے غلام محبوب کھوکھر ، عبادالرحمان خان لودھی اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے شاہد انورباجوہ کو ہدایت کہ کہ وہ سپریم کورٹ کا 19اکتوبر2023کا حکم پڑھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس جگہ ملازمین کام کررہے ہیں۔ اس پر شاہد انورباجوہ کاکہنا تھا کہ پارکو کے مختلف پیٹرول پمپ اسٹیشنز پر کام کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ملازمت سے نکالے جانے کا لیٹر دکھادیں، ہمیں تقریر نہیں سننی، کاغذ کاٹکڑدکھادیں کہ تمہاری سروس نہیں چاہیئے، پلیز! تقریر نہ کریں اورقانون بتادیں، ٹرمینیشن لیٹرجاری ہوا کہ نہیں۔ اس موقع پر وکیل انسٹا کلیئر کا کہنا تھا کہ ملازمین کاایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کیا تاہم انہوں نے وہاں جاکرجوائن نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاوکیل بنیادی حقائق بھی کاغذ کے ٹکڑے پر نہیں لکھتے ۔ چیف جسٹس کا مدعا علیحان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاک عرب ریفائنری کا کوئی لیٹرہے یا چیک دے رہے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا مدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ 1992میں بھرتی ہوئے تھے اپنا تعیناتی کالیٹر دکھادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسز کا فیصلہ وکیل کی وجہ سے نہیں بلکہ پارٹیز کی وجہ سے ہوتاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے کل کتنے ملازمین ہیں۔ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ کل 36ملازمین ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ملازمین کے انفرادی کیسز نہیں دیکھ سکتے، کیا ہم ایک ، ایک دستاویز کی چھان بین کریں گے۔ چیف جسٹس کا شاہد انورباجوہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سچ بولیں کہ آپ کاخط ہے کہ نہیں، ادائیگی کررہے ہیں کہ نہیں یہ آسان بات ہے، خط لکھ رہے ہیں کہ ملازم کی تنخواہ بڑھا اگر وہ آپ کاملازم نہیں توپھر کیوں خط لکھ رہے ہیں، سوری! یہ ہم نہیں کرسکتے کہ 36ملازمین کے الگ، الگ کیسز بیٹھ کردیکھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاہدہ ہے یا نہیں آپ ادائیگی کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ دکھادیں کہ یہ آپ کے ملازمین نہیں، یہ آپ کی جگہ پر کررہے ہیں،ثابت کرنے کا بوجھ آپ پرہے، ایسے آپ کوریلیف نہیں ملے گا، ایمانداری سے حقائق بتائیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا پارکو اورانسٹا کلیئرکے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر ملازم کاالگ، الگ چارٹ بناکر دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمپنی کاایک ہی وکیل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادائیگی دکھائیں ہوئی کہ نہیں، بینک اسٹیٹمنٹ دکھائیں۔ چیف جسٹس کا انسٹا کلئیر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو جادوکی چھڑی بتاتا ہوں، بینک جاکربینک اسٹیٹمنٹ لے لیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پارکو اور انسٹا کلیئر سچائی پر مبنی مشترکہ جواب جمع کروائیں جس سے معاملہ واضح ہوسکتا ہے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ دوہفتے میں درخواست گزار جواب جمع کروائیں اور مدعا علیحان اگر جواب پڑھ کر کوئی جواب جمع کروانا چاہیں تووہ مزید دوہفتے میں ایسا کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کی مزید سماعت ایک ماہ بعد مقرر کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ انسٹا کلیئر یہ تفصیلات بھی فراہم کرے کہ پارکو کے علاوہ کتنی کمپنیوں کو آئوٹ سورس کیا ہوا ہے اورسروس فراہم کررہے ہیں۔ جبکہ بینچ نے محمداعظم خان اوردیگر کی جانب سے اسلم خان اوردیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا مدعا علیہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیس 2014میں سماعت کے لئے مقررہواتھا اس وقت وکیل کرنے کے لئے وقت دیا تھا، 10سال بعد خیال آتا ہے کہ وکیل کرنا ہے۔ ، نہیں کیس چلانا نہ چلائیں ہم کیا کریں۔ چیف جسٹس کامدعا علیہ نمبر7 سرفراز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے 7اکتوبر2014کو وکیل کے انتقال کے باعث نیا وکیل کرنے کا وقت دیا تھا۔

چیف جسٹس کا وکیل کرنے کے لئے ایک ماہ کاوقت دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یا وکیل کریں یا خود دلائل دیں مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔جبکہ بینچ نے شاہد حسین کی جانب سے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر، ملتان اوردیگر کے خلاف سبزی منڈی میں دوکان کی الاٹمنٹ کی منسوخی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں لاہورہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد یافس نوید ہاشمی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس کے حقائق توبتانہیں رہے، دوکان کی الاٹمنٹ کاایشو ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ایک دوکاندار ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرے گا، آئین کے آرٹیکل 199کے تحت رٹ دائر نہیں ہوسکتی، فورم کی بات ہورہی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ سبزی منڈی کی دوکان ہے منساسب فورم پر کیس دائر کرتے اوراپنے مئوکل کی دادرسی کرواتے، درخواست گزازچیئرمین مارکیٹ کمیٹی کے حکم سے متاثر ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کی کہ آئین پڑھیں، اب ہماراکام آئین پڑھوانا ہی رہ گیا ہے وہ آپ نے پڑھنا نہیں جس کاجج تذکرہ کررہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت متعلقہ فورم دستیا ب ہوتوہائی کورٹ میں رٹ دائر نہیں کرسکتے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہتے ہیں اس لئے درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔بینچ نے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر واٹر شیڈ مینجمنٹ ایبٹ آباد اوردیگر کی جانب سے اورنگزیب اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس پیش ہوئے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ سڑک کاتنازعہ ہے، مدعا علیہ نے تجاوزات کھڑی کی ہیں۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ آپ نے 11فٹ پر دیوار تعمیر کرنا شروع کردی۔ نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ تین عدالتوں نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا کہ یہ ہماراکام نہیں، پٹواری آتا ہے دومنٹ کاکام ہے، ختم۔ عدالت نے قراردیا کہ کوئی پارٹی بھی راستہ نہیں روکے گی۔عدالت نے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر واٹر شیڈ مینجمنٹ ایبٹ آباد اوردیگر کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے میرآغاجان اوردیگر کی جانب سے حلیم زادہ کے خلاف زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکے وکیل محمد جنید اکبر کاکہنا تھا کہ درخواست گزار اورمدعا علیہ باپ بیٹا ہیں، درخواست گزارنے اپنے چچا علی ملنگ کو سعودی عرب سے زمین کی خریداری کے لئے 60ہزارروپے بھیجے تھے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ دونوں اطرف زبانی شواہد ہیں ، میرے خلاف ٹرائل کورٹ میں دعویٰ ڈگری ہوا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم حقائق کیسے دیکھیں گے، تکنیکی باتیں نہیں بلکہ سپریم کورٹ قانونی باتیں دیکھے گی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ میرآغاز جان بات اور علی ملنگ چچا ہے، زمین اکتوبر 2003میں خریدی گئی تھی اوردعویٰ27اپریل 2016میں دائر ہوا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا براہ راست بیٹے نے باپ کو پیسے کیوں نہیں بھیجے ۔ عدالت نے مدعا علیحان کونوٹس جاری کرتے ہوئے قراردیا کہ آئندہ سماعت تک فریقین اسٹیٹس کوبرقراررکھیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔