را کے ایجنٹ نے خالصتان تحریک کے حامی پنوں کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ وی او اے

واشنگٹن(صباح نیوز) امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق بھارتی خفیہ ادارے را کے ایجنٹ نے  امریکہ میں خالصتان تحریک کے حامی گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا حکم جاری کرتے ہوئے تفصیلات ممکنہ قاتلوں تک پہنچائیں جس میں پنوں کا نیویارک کا ایڈریس بھی شامل تھا اور یہ بھی لکھا کہ یہ قتل اب ایک ترجیح ہے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق پنوں کے قتل کے منصوبے بارے واشنگٹن پوسٹ  کی رپورٹ امریکی سرزمین پر قتل کی سازش، مودی کے بھارت کا ایک تاریک پہلو اجاگر کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں قتل کی سازش میں ملوث بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک کارکن یادو کی شناخت پہلی بار ظاہر کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یادو کا اس سے تعلق کا ہونا سب سے بڑا اور واضح ثبوت ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی بھارتی خفیہ ایجنسی را کی ہدایت پر کی گئی تھی۔واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کئی حاضر سروس اور سابق امریکی اور بھارتی سیکیورٹی عہدے داروں کے مطابق، را کے ایجنٹ یادو نے ، پنوں کے بارے میں تفصیلات ممکنہ قاتلوں تک پہنچائیں جس میں پنوں کا نیویارک کا ایڈریس بھی شامل تھا اور یہ بھی لکھا کہ یہ قتل اب ایک ترجیح ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ جیسے ہی ممکنہ قاتلوں نے یادو کو یہ اطلاع دی کہ پنوں ( جو امریکی شہری ہیں) اپنے گھر میں ہیں تو انہوں نے قاتلوں کو اپنا کام مکمل کرنے کا سگنل دے دیا۔رپورٹ میں بھارت کی خفیہ ایجنسی کے جن عہدے داروں کا نام دیا گیا ہے، اور جو امریکہ میں را کے اس آپریشن سے آگاہ تھے، انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

وی او اے کے مطابق  امریکی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے مطابق امریکی سرزمین پر ایک سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ امریکی حکام نے ناکام بنا دیا تھا۔واشنگٹن پوسٹ نے لکھا نے لکھا ہے کہ اس منصوبے کی منظوری بھارتی جاسوسی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (RAW) کے اس وقت کے سربراہ سمنت گوئل نے دی تھی جس پر را کے ایک عہدے دار وکرم یادو کام کر رہے تھے۔وکرم یادو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے وہ افسر ہیں جن پر الرام ہے کہ انہوں نے جون 2023 میں کینیڈا میں ایک سکھ سرگرم کارکن ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کرنے کے منصوبے کی نگرانی کی تھی اور کرائے کے ایک قاتل کو اس بارے میں ہدایات دیں تھیں۔

واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اس کی یہ رپورٹ، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، بھارت اور امریکہ کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے تین درجن سے زیادہ حاضر سروس اور سابق سینئر اہل کاروں سے کیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے وی او اے کے مطابق بیرون ملک ہونے والی ہلاکتوں میں را کے ملوث ہونے کے الزامات پہلی بار پچھلے سال ستمبر میں اس وقت سامنے آئے جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ کہا تھا کہ کینیڈا سرگرمی سے ان قابل اعتبار الزامات پر کام کر رہا ہے جن کے مطابق کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا تعلق ممکنہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنٹوں سے تھا۔کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں ایک سکھ گرودوارے کے باہر دو نقاب پوش مسلح افراد نے نجر کو کار میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ نجر ایک سرگرم سکھ کارکن تھے

جنہیں بھارت نے 2020 میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ٹروڈو کے اس بیان کے بعد دونوں کے درمیان تعلقات میں تنا پیدا ہوا اور بھارت نے قتل کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔اس وقت بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ نجر کے قتل جیسی کارروائیوں میں ملوث ہونا بھارتی حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔نومبر میں، بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے کہا تھا کہ امریکہ نے سکھ  رہنما پنوں کو قتل کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور ایک بھارتی شخص کے خلاف قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔22 نومبر کو وائٹ ہاس کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام نے یہ معاملہ نئی دہلی میں اعلی ترین سطح پر حکام کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت اس میں ملوث ہے۔