اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ قتل کے معاملہ پر کمپرومائز نجی معاملہ ہے جو کہ ملزم اور متاثرہ فیملی کے درمیان ہے، اس معاملہ کے سول اور فوجداری اثرات ہیں، اسلام کے ابتدائی دنوں میں لوگ خود آکر کہتے تھے کہ میں نے یہ گناہ کیا ہے اس کی سزامجھے دی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگردنیا میں کسی کو گناہ کی سزامل جائے تووہ آخرت میں سزانہیں دے گا، لوگ کہتے تھے کہ ہم دنیا میں ہی سزاپالیں گے کیونکہ آخرت کی سزابہت سخت ہے۔سارے گناہ میرے سرپر نہ ڈالیں، میرے گناہ میرے سرپرڈالیں،اگر کہیں کہ ستمبر 2023سے کیس زیر التواہے تومیں اس کی معذرت کرلوں گا۔جبکہ عدالت نے پولیس کانسٹیبل کی جانب سے دوران سروس قتل کرنے اور کمپرومائز اور دیت کی ادائیگی کے بعد ملازمت پر بحالی کے معاملہ پر آئینی،قانونی اوراسلامی دفعات کی تشریح کے معاملہ پر اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصورعثمان اعوان، تمام صوبائی حکومتوں، تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، صوبوں کے پراسیکیوٹرجنرلز،وفاقی وزارت مذہبی امور اوربین المذاہب ہم آہنگی کے توسط سے اسلامی نظریاتی کونسل اور پانچوں مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے وفاق المدارس کو معاونت کے لئے نوٹسز جاری کرتے ہوئے6ہفتے میں تحریری معروضات طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے سابق ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی خیبرپختونخوا ڈاکٹر عدنان خان کو عدالتی معاون مقررکردیا ہے۔
جبکہ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی جانب سے معاملہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ خان آفریدی ، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئی جی پولیس خیبرپختونخوا ، پشاور(موجودہ صوبائی پولیس آفیسر ، خیبرپختونخوا پشاور)کی جانب سے قتل کیس میں کمپرومائز کر کے دیت اداکرنے والے پولیس کانسٹیبل محمد ایوب کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں یہ نقطہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر کوئی کوئی پولیس اہلکار دوران سروس قتل کر کے اور کمپرومائز کر کے دوبارہ ملازمت پر بحال ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ شاہ فیصل الیاس حسن خیل اور ڈی ایس پی آپریشنز ہیڈکوارٹرز داسو، اپر کوہستان راجہ خان پیش ہوئے۔جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے سابق وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل ہارون الرشید پیش ہوئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوڈ آف کریمینل پروسیجر (سی آرپی سی)کی دفعہ 345(6)کی تشریح کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں دونقطہ نظر ہیں، میں نے اپنا نقطہ نظر بتایا ہے اوردیگر ججز نے بھی بتایا ہے، ایڈیشنلڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججزاپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ کمپرومائز قبول کیا جاتا ہے اور ملزم کو بری کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمپرومائز نجی معاملہ ہے جو کہ ملزم اور متاثرہ فیملی کے درمیان ہے، اس معاملہ کے سول اور فوجداری اثرات ہیں، اسلام کے ابتدائی دنوں میں لوگ خود آکر کہتے تھے کہ میں نے یہ گناہ کیا ہے اس کی سزامجھے دی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگردنیا میں کسی کو گناہ کی سزامل جائے تووہ آخرت میں سزانہیں دے گا، لوگ کہتے تھے کہ ہم دنیا میں ہی سزاپالیں گے کیونکہ آخرت کی سزابہت سخت ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کریں گے، اسلامی نظریاتی کونسل اور پانچ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے وفاق المدارس سے بھی کیس کے اسلامی پہلوئوں پر رہنمائی لیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے سابق چیف جسٹس سے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، ہم دیکھ لیں گے کہ بڑا بینچ بنائیں۔چیف جسٹس کا مدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم اصول پر بحث کریں گے اورذاتی کیس نہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں فیصلے کااطلاق مستقل سے ہی ہوسکتا ہے اوراگر ماضی سے فیصلے کااطلاق کریں گے تویہ عجیب ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا مدعا علیہ کو نوکری مل گئی۔ اس پرایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ کاآرڈر معطل کردیا گیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ واقعہ میں تین قتل ہوئے تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ مدعاعلیہ پر ایک قتل کاالزام ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے دیت اداکی ہے۔ چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں کیس کے لئے محنت کرنا ہوگی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمد رضاگیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم پراسیکیوٹر جنرلزکو نوٹس نہیں دیں گے بلکہ ایڈووکیٹ جنرل کونوٹس دیں گے اورہ آگے آپ کو مارک کردیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں قانون، آئین اوردین کا بھی مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق ڈائریکٹر جنرل جوڈیشل اکیڈمی خیبر پختونخوا ڈاکٹر عدنان خان کو عدالتی معاون مقررکردیتے ہیں وہ اسلامک سکالر بھی ہیں اورسپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ مشکل ہو گی۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ پھر عدالت 7رکنی لارجر بینچ بنادے۔ مدعا علیہ کے وکیل کا کہنا تھاکہ معاملہ 2019سے زیر التواہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارے گناہ میرے سرپر نہ ڈالیں، میرے گناہ میرے سرپرڈالیں،اگر کہیں کہ ستمبر 2023سے کیس زیر التواہے تومیں اس کی معذرت کرلوں گا۔ چیف جسٹس کا مدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے موئکل کا موجودہ اسٹیٹس کیا ہے، ہوسکتا ہے کوئی بہتر کام مل گیاہو اورہ کہے کہ مجھے پولیس کانسٹیبل کی نوکری کی ضرورت نہیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے علم نہیں کہ ان کے مئوکل آج کل کیا کام کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی نے یہ معاملہ موجودہ 5رکنی لارجر بینچ کے سامنے لگایا۔
معاملہ کے حوالہ سے دوبینچز ایک تین رکنی اورایک دورکنی بینچ نے اپنا نقظہ نظردیا۔ کیس میں سی آرپی سی کی دفعہ 345(6)کے تحت جرائم کی تشریخ کا سوال ہے۔ ملزم کو کمپرومائز کے تحت بری کیا گیا ہے تاہم اس کا جرم اور داغ برقراررہے گا۔ ہمیشہ ، ہمیشہ کے لئے معاملہ حل کرنے کے لئے بینچ تشکیل دیا گیا ہے، پورے پاکستان پر فیصلے کااثر ہو گا، صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو عدالتی معاونت کے لئے نوٹس جاری کیا جاتاہے۔ جن صوبوں میں پراسیکیوٹر جنرلز ہیں ان کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کے پی میں پراسیکیوٹر جنرل نہیں، آپ ہمیشہ دوسروں سے الگ چلتے ہیں ،آپ کہتے ہیں کہ ہم دونوں کام ایک تنخواہ پرکام کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ کا اسلامی پہلو بھی ہے اس لئے وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے توسط سے اسلامی نظریاتی کونسل اور پانچوں مکتبہ فکر کے وفاق المدارس کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کاجاتا ہے۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ 345(6)سی آرپی سی، 338(E)پی پی سی، آئین کے آرٹیکل 227، شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1991کے سیکشن فور، سی آر پی سی کی دفعہ 403کی تشریح کے حوالہ سے معاونت کی جائے۔ اس حوالہ سے بھی معاونت کی جائے کہ فیصلے کااطلاق ماضی سے بھی ہوگایامستقبل سے ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کے آرڈر کی کاپی عدالتی نوٹس کے ساتھ تمام متعلقہ حکام کو بھجوائی جائے اوربہتر ہوگا کہ 6ہفتے میں تحریری معروضات جمع کروائی جائیں۔