زبانی جمع خرچ کے بجائے نظامِ امتحانات کو عالمی معیار پر لایا جائے،پروفیسرابراہیم خان


پشاور(صباح نیوز) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹر جنرل نافع پاکستان پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے نظامِ امتحانات کو عالمی معیار پر لایا جائے ،فول پروف امتحانات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے، آج کل وزیر تعلیم پنجاب کے امتحانی مراکز کے طوفانی دورے شہ سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نقل مافیا کے خلاف موثر اور سخت کارروائی کی جارہی ہے۔ ان ہنگامی دوروں یا چھاپوں کے نتیجے میں مبینہ طور پر درجنوں اساتذہ اور دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا یا ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کردیا گیا لیکن یہ اقدامات وقتی یامحض میڈیا میں نمایاں ہونے اور زبانی جمع خرچ کے سوا عملی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ تعلیم کے وفود سے گفتگو میں کیا۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام میں امتحانی نظام کلیدی حیثیت رکھتا ہے،امتحان صرف نمبر گیم کا نام نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں تعلیمی جانچ اور جائزے کا نام ہے جس کے نتیجے میں طلبہ کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے، امتحانی نظام میں سب سے بڑا چیلنج منصفانہ طریقہ کار کا نہ ہونا ہے ،پاکستان میں دینی مدارس کے علاوہ تین قسم کے تعلیمی بورڈز کام کررہے ہیں جس میں کیمبرج سسٹم، آغا خان بورڈ اور سرکاری بورڈز شامل ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے، اس لئے صوبائی بورڈز وفاق سے آزاد اور خودمختار ہیں لیکن وفاقی تعلیمی بورڈ (فیڈرل بورڈ)بھی ملک بھر میں فعال ہے،صوبائی تعلیمی بورڈز کی نسبت وفاقی بورڈ میں کچھ حوصلہ افزا اقدامات بروئے کار لائے جاچکے ہیں جبکہ صوبائی بورڈز کے امتحانی نظام پر ہر سال خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے اور نقل کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں امتحانات میں نقل مافیا ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ پنجاب کے وزیر تعلیم نے لاہور کے چند امتحانی مراکز کا ہنگامی دورہ کیا اور مبینہ طور پر نقل میں ملوث پائے جانے والے عملے اور اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ چیئرمین لاہور بورڈ کو بھی نقل مافیا کی سرپرستی کے الزام میں معطل کردیا گیا۔ بظاہرمحسوس ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب صوبے میں فول پروف امتحانات کو یقینی بنانے میں کوشاں ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ، نقل مافیا صرف امتحانی مراکز تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی بورڈز کا ناقص نظام اس کا ذمہ دار ہے۔ چیئرمین بورڈ سے لے کر امتحانی عملے تک مخصوص لوگ نقل مافیا کا منظم حصہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کے خلاف کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ امتحانی نظام کی کلیدی ضرورت تحریری طور پر امتحانی پالیسی کا موجود ہونا ہے۔ یہ نکتہ باعثِ حیرت ہے کہ صوبائی تعلیمی بورڈ کی کوئی تحریری امتحانی پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں ،شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری بورڈز کے پاس تحریری امتحانی پالیسی کا وجود ہی نہیں،ایک موثر امتحانی پالیسی کے بغیر امتحانات کو شفاف بنانے کا دعویٰ ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔وفاقی سطح پر ایک نام نہاد امتحانات کا پالیسی ساز ادارہ انٹر بورڈ کوآرڈی نیشن کمیشن(آئی بی سی سی)قائم ہے، گذشتہ برس کئی دعوے کئے گئے کہ باقاعدہ امتحانی پالیسی مرتب کی جارہی ہے اور امتحانات میں اصلاحات کی باتیں بھی کی گئیں لیکن رواں برس پورے ملک میں ہونے والے میٹرک کے پرچوں میں کسی قسم کی اصلاحات لاگو نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوائے وفاقی بورڈ کے تمام صوبائی بورڈز میں معیاری پرچہ جات کی تیاری کا کوئی باقاعدہ میکانزم اور اسیسمنٹ کے جدید اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ عام طور پر سینئر اساتذہ یا مخصوص لوگ جو ہر سال پرچہ بناتے ہیں، سابقہ پرچوں کو دیکھ کر ان کا چربہ بنا دیا جاتا ہے، یعنی گذشتہ پانچ برس کے پرچوں میں ذرا بھر کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے۔ گذشتہ برس تعلیمی بورڈز کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ 2024میں امتحانی پرچوں میں ایک چوتھائی سوالات بلوم ٹیکسانومی کے مطابق تصوراتی اور تجزیاتی نوعیت کے ہوں گے    لیکن یہ بھی محض دعویٰ ثابت ہوا۔ مارکیٹ میں ان پیپر سیٹرز کی ملی بھگت سے گیس پیپرز اور ماڈل پیپرز دستیاب ہوتے ہیں۔ ان پیپر سیٹرز کے پرائیویٹ پبلشرز سے تعلقات ہوتے ہیں، جوسوالات وہ پرچوں کے لئے  تیار کرتے ہیں ان میں ذرا بھر تبدیلی کے بعد ماڈل پیپرز میں شامل کردیے جاتے ہیں جس سے رٹا سسٹم کو تقویت پہنچتی ہے۔

انہوں نے  کہا کہ امتحانات کے لئے  امتحانی عملے (سپرنٹنڈنٹ، نگران وغیرہ)میں ہر سال عموماً مخصوص لوگوں کو تعینات کردیا جاتا ہے بلکہ مرضی کے امتحانی مراکز پر ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے۔ کئی اساتذہ سال ہا سال سے  امتحانی ڈیوٹی کررہے ہیں، یہ لوگ نقل مافیا کا براہ راست حصہ ہیں، اس پورے معاملے میں بورڈ کا کلرک عملہ براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ بعض امتحانی مراکز نقل مافیا کے لئے  سونے کی چڑیا ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں کنٹرولر امتحانات اور بورڈ عملہ اچھی طرح جانتا ہے،یعنی امتحانی عملے کا بھی ایک نیٹ ورک بنا ہوتا ہے۔ رواں برس تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ امتحانی مراکز میں مقامی اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی گئی،جس سے بدنیتی صاف ظاہر ہے۔ چند ایک اساتذہ کو سزا یا ڈیوٹی تبدیلی کرنے کے علاوہ مجموعی طور پر اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امتحانی عمل میں سرکاری اساتذہ کی اکثریت ہوتی ہے،میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے دوران تیس فی صد سے زائد اساتذہ امتحانی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں جس کی وجہ سرکاری سکولوں میں پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔ رواں برس دو طرفہ تماشا یہ ہوا کہ امتحانات کے دنوں میں ہزاروں اساتذہ کو رمضان راشن تقسیم کرنی کی ڈیوٹی پر تعینات کردیا گیا جس کی وجہ سے ساٹھ فی صد سے زائد اساتذہ امتحانات کے دوران سکولوں میں تدریسی امور کے لیے دستیاب نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ ناقص امتحانی نظام کا ایک اور مظہر یہ بھی ہے کہ مارکنگ سسٹم انتہائی ناقص اور غیر معیاری ہوتا ہے۔ مارکنگ کے لیے غیر تربیت یافتہ اور مخصوص افراد کو شامل کیا جاتا ہے جو امتحانی روبرکس(Rubrics)کا خیال رکھے بغیر ناقص مارکنگ کرتے ہیں۔ مارکنگ سنٹر کو فول پروف بھی نہیں بنایا جاتا ہے۔ امتحانی روبرکس (Rubrics) بھی نہایت غیر معیاری تیار کی جاتی ہے۔ مارکنگ میں بھی نقل مافیا فعال ہوتا ہے اور بورڈ کی پوزیشن میں بھی بدعنوانی کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ المیہ ہے کہ وزیر تعلیم و دیگر شعبہ تعلیم کے ذمہ داران  کی طرف سے ہر سال امتحانات ہی کے دنوں میں نقل کی روک تھام  کے لئے  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خوب بیان بازی  ہوتی ہے،لیکن ایک فی صد بھی ان  بیانات پرعمل درآمد نہیں ہوتا اور کچھ دنوں بعد اس معاملے کو سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔پوراسال یوں ہی گزر جاتا ہے اور اگلے سال نقل مافیا پھرسے سرگرم ہو جاتا ہے۔ہمارے نظامِ تعلیم میں زوال کی سب سے بڑی وجہ نقل کلچر ہے، جو ہمارے  نظامِ تعلیم کو اندرسیکھو کھلا کر رہاہے،جس کے لئے  موثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ ناگزیر ہے کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے نظامِ امتحانات کو عالمی معیار پر لایا جائے،نقل کے سدِ باب کے لئے موثر قانون سازی کی جائے،امتحانات کے لئے  تحریر ی پالیسی مرتب کی جائے،امتحانات میں اساتذہ کی ڈیوٹی کے حوالے سے بھی پالیسی مرتب کی جائے، فول پروف امتحانات کے انعقات کو یقینی بنایا جائے،مارکنگ کے لئے  بھی ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اورنقل مافیا کو قرارواقعی سزا دلائی جائے۔