امریکہ کبھی اچھا اتحادی ثابت نہیں ہوا : تحریر محمود شام


پہلے تو ایک انتہائی مضطرب دل کی گہرائی سے یہ دعا کہ 76 سال سے پاکستان اور ایران کے درمیان پُر امن تعلقات کی تاریخ کے بر عکس ہماری سرحد پار کرکے ایران کی فوجی مداخلت اور اس کے بعد پاکستان کی جوابی کارروائی۔ بھرپور جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ کیونکہ یہ صورت حال پاکستان میں پہلے سے پیچیدہ داخلی صورت حال کو مزید گھمبیر کردے گی۔ ہماری کوششیں جو معیشت کی بحالی اور ایک نئی منتخب حکومت کے قیام کے لیے کی جارہی ہیں۔ وہ سب رائیگاں ہوجائیں گی۔ خطّے میں انسانی ہلاکتیں بڑھ جائیں گی۔ علیحدگی پسند قوم پرستی میں اضافہ ہوجائے گا۔

اب جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے۔ تو 8فروری میں صرف 17دن رہ گئے ہوں گے۔ دو ہفتے اور 3دن۔ انتخابی مہم تیز ہورہی ہوگی۔ عدالتی فیصلوں۔ پولیس کی پکڑ دھکڑ۔ ریاستی فرامین سے الیکشن اپنا تجسس اورتقدس کھوتے جارہے ہیں۔ کسی زمانے میں انہیں قبل از الیکشن دھاندلی کہا جاتا تھا۔ پھر انہیں مثبت نتائج کا حصول کہا جانے لگا۔ اپنی گزشتہ تحریر میں ہم نے عرض کی تھی کہ بیسویں صدی کے نصف سے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے چوتھے سال تک پاکستان کے انتخابات میں سپر طاقت امریکہ کی دلچسپی رہی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد طعنہ دیا جارہا تھا کہ اب امریکہ کے لیے پاکستان اہم نہیں رہا ہے۔ لیکن اب اپریل 2022کے بعد پھر ہم پاکستانی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اب بھی ہماری ضرورت محسوس کرتا ہے۔ ناصر کاظمی کے الفاظ ہیں۔

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ایران پاکستان دونوں کے سرحدی ٹیکنیکل حملوں اور دونوں طرف بلوچ خاندانوں کی ہلاکتوں کے بعد بی بی سی اور دوسرے عالمی نشریاتی اداروں کے تجزیے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ عراق اور پاکستان میں اپنی موجودگی رکھنا چاہتا ہے۔ ایک Great Game ’بڑی بازی‘ جو روس کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ وہ اب بھی جاری ہے۔ پہلے روس کے خلاف برطانیہ سرگرم ہوتا تھا۔ ان کے جاسوس سینکڑوں میل گھوڑوں خچروں پر پہاڑوں۔ دریاؤں سے گزر کر اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ اب امریکہ نے یہ محاذ سنبھال لیا ہے۔ انسان نے جاسوسی کے لیے ڈرون ایجاد کرلیے ۔جوسراغ بھی لگاتے ہیں۔ اور اپنے اہداف کو ہلاک بھی کردیتے ہیں۔ انسان نے صرف سفارت کاری میں ہی نہیں چنگیزیت میں بھی ترقی کی ہے۔ چنگیز کو کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرنے کا شوق تھا۔ آج امریکہ اور اس کے گماشتے غزہ میں لاشوں کے انبار لگارہے ہیں۔ 24ہزار سے زیادہ قتل۔ اور ان میں دس ہزار سے زیادہ بچے۔ یہ نسل کشی ہے۔ یہودی اپنے ہولو کاسٹ کا ماتم کرتے ہیں۔ کیا یہ Holocaust ۔ ہولو کاشت نہیں ہے۔ کیا اسرائیل نازیوں کا کردار ادا نہیں کررہا ۔

آغا حشر کاشمیری کی فریاد دہرانے کو جی چاہتا ہے:

اے دعا! ہاں عرض کر عرش الٰہی تھام کے

اے خدا رخ پھیر دے اب گردش ایّام کے

خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے

آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے

حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں

طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

حالات ایک صدی پہلے بھی مسلمانوں کے ایسے ہی تھے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں ۔ بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور تبادلۂ خیال کا دن۔ علاقائی مناظر تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ امریکہ یورپ نے یوکرین جنگ کو مشرق وسطیٰ میں دھکیل دیا ہے۔ امریکہ نے اپنے گماشتے اسرائیل کے ذریعے جنگی تھیٹر بدل دیا ہے۔امریکہ برطانیہ یمن پر آگ برسارہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ۔ بڑی طاقتوں کی شکار گاہ رہا ہے۔ بیسویں صدی بلکہ انیسویں صدی کے آخر سے وہاں مغربی طاقتیں اپنے تدبر اور ہتھیاروں کے ذریعے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل کررہے ہیں۔ اولادوں کو بتائیں کہ خلافت عثمانیہ کہاں تک تھی۔ اب اس کے کتنے حصّے بخرے ہوچکے ہیں۔ عثمانی خلیفے سلطان بن گئے۔ علم و حکمت کو ترک کرکے ہتھیاروں پر تکیہ کرنے لگ گئے۔ خلق خدا کو راحت پہنچانے کی بجائے اپنے محلات کو پُر تعیش بناتے گئے۔ پھر انجام کیا ہوا۔

امریکہ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ لڑائیاں اس کی سر زمین سے دور دور ہوتی رہیں۔ 2001میں وہ جنگ اپنے بڑے شہروں تک لے آیا اور اس کے بعد اس نے ہمارے پڑوس افغانستان میں کیا حال کیا۔ امریکہ کی دریافت سے پہلے دنیا دیکھ لیں کتنی پُر امن تھی۔ ایک جاپانی نے بڑی اہم کتاب لکھی۔ ’’500 سال کی نحوست۔‘‘ نائن الیون کے بعد جنوبی ایشیا کے ایڈیٹروں کے ساتھ ہمیں امریکہ میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹا گون میں تفصیلی آگاہی ملی۔ 2005 جنوری میں یعنی 19 سال پہلے میں نے اپنی کتاب ’امریکہ کیا سوچ رہا ہے‘ کے ایک باب میں ’’پینٹاگون میں مستقبل کی نقشہ کشی ‘‘ میں خبردار کیا تھا۔ ’’ امریکی محکمہ دفاع اپنی افواج کو مستقبل کے معرکوں کے لیے تیار کررہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی زیر غور ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں امریکی افواج متعین ہوں گی وہاں آئندہ برسوں میں کیا کیا سماجی۔ سیاسی۔ اقتصادی تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں مقامی افواج سے کس طرح رابطہ ہوگا۔ مقامی افواج کی بھی تربیت ہونی چاہئے یا نہیں۔‘‘ ایک انتہائی غور طلب جملہ ملاحظہ ہو۔ سرد جنگ کے دَور میں امریکہ اپنے دوست ممالک کی فوجوں کو جدید ہتھیار فراہم کرتا۔ مقامی فوجی افسروں کے ذریعے ان ملکوں کی سیاست میں داخل ہوتا۔ پالیسی یہ تھی کہ ان مقامی افواج کے ذریعے عوام کو قابو میں رکھا جائے۔ اب یک طاقتی دنیا میں وہ دوسرے ملکوں کی افواج کو زیادہ طاقتور بنانا نہیں چاہتا۔ بلکہ اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرکے دوسرے ملکوں کو اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا دیکھنا چاہتا ہے۔

پینٹاگون کے تمام برآمدے امریکی عسکریت کی نمائش کرتے ہیں۔ پینٹاگون کے افسر 2004 میں کہہ رہے ہیں کہ یہ جو سیاسی مہم چلائی جارہی ہے کہ عرب دنیا برہم ہے۔ عرب نوجوان ناراض ہیں۔ بتائیے کسی عرب ملک کے بازار۔ شاہراہوں پر کوئی ہنگامے ہورہے ہیں۔ تل ابیب پر کس نے میزائل پھینکا ہے۔‘‘اب تو حماس نے میزائل پھینک دیے ہیں۔

یمن پر امریکہ برطانیہ ملکر حملے کررہے ہیں۔ اٹھارویں انیسویں بیسویں صدی کے ’گریٹ گیم‘ کے دونوں کردار اکٹھے ہوگئے ہیں۔ روس نے کچھ ہمت کی تھی۔ چین فوجی کارروائی سے گریزاں ہے۔ امریکہ کو کھلا میدان مل گیا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کیلئے چین کا مشورہ ہے۔ مفاہمت۔ امریکہ اسے اپنی پالیسی کے مطابق ہوا دے گا ۔ہمیں بہت احتیاط ۔ تدبر کی ضرورت ہے۔ افغانستان ایران ہمارے ہمسائے ہیں۔ امریکی سامراج سے ان کی مزاحمت تاریخی ہے۔ اس لیے ہم اس جنگ کا حصّہ نہ بنیں۔ ہمارے لیے یہی بہتر ہے اپنے الیکشن کروائیں۔ اور عوام جسے مینڈیٹ دیں اسے اقتدار منتقل کردیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ