ایں جہالت بزورِ بازو نیست … تحریر : وسعت اللہ خان


جو جو تاریخ و جغرافیے سے عاری اینکرز اور سینئر جونیئر تجزیہ کار چابی بھرے بھالو کی طرح پاک ایران تعلقات کو پاک بھارت اور پاک افغان تعلقات کے روایتی بھاشنیے پلڑے میں رکھ کے منہ توڑ ، دندان شکن جیسی لفظیات استعمال کر رہے ہیں انھیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

انھیں شاید یہ اندازہ بھی نہیں کہ افغان ، بھارت پاکستان تعلقات اور ایران پاک تعلقات کے بارے میں ریاستی بیانیہ بالکل مختلف اور مبنی بر احتیاط ہے۔

انھیں شاید یہ بھی اندازہ نہیں کہ ہر بحران پوائنٹ اسکورنگ اور بڑھ چڑھ کے موسمی وفاداریاں ظاہر کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ ہر مناقشے کو اس کے اپنے تناظر میں کامن سنس کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر ایں جہالت بزورِ بازو نیست۔

کتنے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان قائم ہوتے ہی سب سے پہلے جس ملک نے اس کے وجود کو پہلے ہی روز سفارتی طور پر تسلیم کیا وہ ایران تھا۔پاکستان نے سب سے پہلے جس ملک میں اپنا سفیر ( راجہ غضنفر علی خان ) مقرر کیا اور مئی انیس سو اڑتالیس میں سفارتی دفتر کھولا وہ تہران تھا۔

پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مئی انیس سو انچاس میں جس ملک کا پہلا اسٹیٹ وزٹ کیا وہ ایران تھا۔رضا شاہ پہلوی پہلے حکمران تھے جنھوں نے مارچ انیس سو پچاس میں پاکستان کا دورہ کیا اور دو طرفہ دوستی معاہدہ طے پایا۔

(جب کہ بھارت سے ایران کے رسمی سفارتی تعلقات مارچ انیس سو پچاس میں یعنی تقسیم کے تین برس بعد قائم ہوئے۔ شاہ ایران نے دلی کا پہلا دورہ فروری انیس سو چھپن میں کیا۔ مسز اندراگاندھی پہلی بھارتی حکمران تھیں جنھوں نے انیس سو چوہتر میں ایران کا سرکاری دورہ کیا )۔

پچاس کی دہائی میں پاکستان اور ایران امریکی حمایت یافتہ سیٹو اور سینٹو میں شامل رہے۔انیس سو چونسٹھ میں ایوب خان کی تجویز پر ایران اور ترکی نے سہ طرفہ علاقائی تعاون کا سمجھوتہ آر سی ڈی کیا۔اس کی افادیت کو پاکستانی تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیا گیا ( یہ تجربہ سارک، روڈ اینڈ بیلٹ، شنگھائی کوآپریشن کاونسل، ہارٹ آف ایشیا سے بہت پہلے کا ہے )۔

ایران میں بھلے شاہی دور رہا یا انقلابی۔مسئلہ کشمیر پر ایرانی موقف کبھی بھی بھارت کے حق میں نہیں رہا۔

انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں جن ممالک نے پاکستان کا کھل کے ساتھ دیا وہ چین ، ایران اور انڈونیشیا تھے۔اس جنگ کے دوران ایران نے پاک فضائیہ کو لاجسٹک سہولتیں بھی فراہم کیں۔انیس سو اکہتر کی خانہ جنگی کے دوران بھی ایران نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے غیر جانبدار رویہ برتا نیز مشرقی و مغربی پاکستان کی قیادت کے درمیان ثالثی کی بھی پیش کش کی۔

بھٹو صاحب کے دور میں خلیجی ممالک سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوا۔مگر پاکستان کے صنعتی سیکٹر میں ایرانی سرمایہ کاری بھی بڑھی۔انیس سو تہتر میں بلوچستان میں بدامنی سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے جو آپریشن شروع کیا۔

اس میں بھی ایرانی حکومت نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اسٹرٹیجک مدد کی تاکہ بے چینی کا دائرہ وسیع ہو کر ایرانی بلوچستان اور سیستان تک نہ پھیل جائے۔مگر بلوچستان کے دونوں اطراف آباد قبائل کے رابطوں اور آمدو رفت اور غیر رسمی تجارتی لین دین میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔

بھارت اور افغانستان کے برعکس پاکستان اور ایران کا سرحدی حد بندی پر کبھی کوئی جھگڑا یا دعوی نہیں رہا۔انقلاب کے بعد مجاہدینِ ِ خلق سمیت متعدد ایرانی منحرفین نے پاکستان میں پناہ لی۔نئی مذہبی قیادت چہار جانب انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی حامی تھی۔

چنانچہ پاکستان کے اندر بھی اسے فرقہ وارانہ زاویے سے دیکھا جانے لگا اور اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ( پراکسیوں کے جواب میں پراکسیاں پیدا کی گئیں جو اپنے ہی سماجی دھاگے کو چبانے لگیں )۔

انیس سو اناسی میں افغانستان میں براہ ِ راست سوویت مداخلت کے سبب پاکستان ، خلیجی ممالک اور امریکا کا جو اسٹرٹیجک اتحاد ابھر کے سامنے آیا اس کے سبب بھی ایران نے خود کو علاقائی گھیراو میں محسوس کیا۔

تناؤ طرح طرح سے ظاہر ہونے لگا۔حتی کہ ایرانی عدالتی نظام کے سربراہ آیت اللہ خلخالی نے اپنے بیان میں یہ تک کہا کہ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ امریکا نواز فوجی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔مگر پاکستانی حکومت کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ ایران کی ریاستی پالیسی ہرگز نہیں۔

جب مجاہدینِ خلق کے خلاف ایرانی حکومت نے بیرونِ ملک کارروائیاں شروع کیں تو پاکستان بھی اس کی زد میں آیا۔کوئٹہ اور کراچی میں انیس سو ستاسی میں فریقین کی مسلح جھڑپوں میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ پاکستان نے تہران پر واضح کر دیا کہ اس سطح کی کارروائیاں ہرگز قابلِ قبول نہیں۔اسی عرصے میں جنرل ضیا الحق نے ایران عراق جنگ کے خاتمے کے لیے اسلامی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ثالثی کی بھی ناکام کوشش کی۔

ایران گیس کے ذخائر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔مگر پاکستان ہمسائیگی کے باوجود اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا پایا۔اس بابت امریکی دباؤ اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقاتی نزاکتیں ہمیشہ آڑے آتی رہیں۔

اس کی ایک مثال پاک ایران گیس پائپ لائن ہے جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے خاصی حد تک نجات دلا سکتی تھی مگر دو ہزار بارہ سے اب تک یہ منصوبہ ٹھپ ہے۔البتہ مکران ریجن کے لیے ایرانی بجلی کی فراہمی کا منصوبہ مقامی سطح پر خاصی حد تک کامیاب ہے۔اگرچہ پاک ایران سرحد پر حفاظتی باڑھ بھی لگ چکی ہے۔

اس کے باوجود منشیات ، تیل اور مسلح افراد کی غیر قانونی آمد و رفت کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔اگر دونوں ریاستیں چاہیں تو طے شدہ مقامی سیکیورٹی میکنزم پر عمل پیرا ہو کے ان مسائل کا سدِ باب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔مگر علاقائی اسٹرٹیجک گیم میں ریاستوں کو اپنے قلیل اور طویل مفادات کے لیے ایک دوسرے کو حد میں رکھنے اور چیک کرنے کے لیے پیادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کروڑوں ڈالر پیدا کرنے والی غیر قانونی معیشت سے بھی سرحد کے آر پار بہت سے طاقتوروں کی روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے۔کبھی کبھی یہ مفاداتی تضادات اچھل کے سامنے آ جاتے ہیں اور بیچ چوراہے میں بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے۔

افغانستان جو پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے تنازعے میں مسلسل تاریخی فریق ہے اور بھارت جس کے ساتھ تعلقات نارمل رکھنے کا عمل ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ان دونوں کے برعکس ایران پاکستان کے درمیان ایسا کوئی تاریخی یا جغرافیائی تنازعہ نہیں جسے جواز بنا کے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مسلسل درپے ہوں۔

چین دونوں کا مشترکہ دوست ہے اور دونوں ممالک میں اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی ایک فریق کی وقتی جذباتیت اور بے وقوفی سے اس کے علاقائی مفادات میں وہ آگ لگ جائے جس پر ہاتھ تاپنے کو بھارت اور مغربی دنیا سمیت کئی شکاری تیار بیٹھے ہیں۔لہذا پاکستان ایران کے مابین جو بھی گرم سرد ہے وہ بقول ایک سفارت کار بہت آسانی سے مینیج ایبل ہے۔

چنانچہ میری اپنی میڈیا برادری سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو حق و باطل کی لڑائی اور دندان شکن اور منہ توڑ قرار دینے سے پرہیز کریں۔ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری بھی ہو جائے۔ریاستیں اپنے حساب سے چلتی ہیں تیرے میرے موڈ سے نہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس