ایران اور پاکستان کے تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک امام خمینی کے انقلاب سے قبل کے ایران پاکستان تعلقات اور دوسرا بعد از انقلاب کے تعلقات۔
شاہی دور میں پاکستان اور ایران کے تعلقات انتہائی خوشگوار رہے بلکہ احسانات کے لحاظ سے ایران کا پلڑا بھاری رہا۔
ایران پہلا ملک تھا جس نے قیام کے فورا بعد پاکستان کو تسلیم کیا۔ ایران نے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بھی مدد کی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو سپورٹ کیا۔ یہ کام تب اسلئے بھی آسان تھا کہ شاہی ایران اور پاکستان دونوں امریکی کیمپ میں رہے۔
دوسرا دور امام خمینی کے انقلاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور اسے ہم ایک لو اینڈ ہیٹ (Love and hate) تعلق کا دور کہہ سکتے ہیں۔ جس میں پاکستان کے احسانات کا پلڑا بھاری رہا لیکن ایران کا رویہ درپردہ حلیفانہ کی بجائے حریفانہ رہا۔
انقلاب کے بعد ایران امریکی کیمپ سے نکل گیا اور پاکستان حسب سابق اسی کیمپ میں رہا بلکہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کی قربت مزید بڑھ گئی۔
دوسری طرف ایران نے اپنے انقلاب کو پاکستان اور دیگر ممالک تک ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات بڑھ گئیں۔
ادھر عرب ممالک پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مالی مدد کرتے رہے جبکہ پاکستانی زرمبادلہ کا بڑا وسیلہ بھی عرب ممالک رہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو مکمل طور پر عرب بلاک میں جانے کا جواز بنتا تھا لیکن پاکستان نے عرب ممالک اور ایران کیساتھ تعلقات میں توازن کو برقرار رکھا لیکن ایران سعودی عرب کیساتھ اپنی پراکسی وار پاکستانی سرزمین پر لڑتا رہا جس کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا ملتی رہی۔
دوسری طرف پاکستان عراق ایران جنگ میں نہ صرف غیرجانبدار رہا بلکہ دامے درمے سخنے ایران کی مدد بھی کرتا رہا۔ ایران کے امریکہ کیساتھ سفارتی تعلقات ختم ہوئے تو پاکستانی سفارتخانہ ایران کیلئے رابطے کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا لیکن ایران نے ان احسانات کا جواب کبھی بھی احسان کی صورت میں نہیں دیا۔
دونوں ممالک کے مابین ایک بڑی وجہ نزاع افغانستان بھی بنا رہا۔ اگرچہ دونوں ممالک مجاہدین کو سپورٹ کررہے تھے لیکن سعودی عرب اور پاکستان کی زیادہ امداد افغانستان کے سنی اور پشتون تنظیموں کو جبکہ ایران کی فارسی بولنے والے اور ہزارہ تنظیموں کو ملتی رہی۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد سے ایران افغانستان میں پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا پارٹنر بن گیا۔
افغانستان میں پاکستان کی سپورٹ سے طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی تو ایران انڈیا کیساتھ ملکر شمالی اتحاد کو نہ صرف سپورٹ کرتا رہا بلکہ ایک موقع پر تو اس نے طالبان کے خلاف اپنی افواج بھی افغانستان کے بارڈر پر جمع کردیں لیکن پاکستان کوشش کرتا رہا کہ طالبان ایران کیخلاف کوئی اقدام نہ کرے۔
پاکستان پر ایران کے ایٹمی پروگرام میں سپورٹ کا الزام بھی لگتا رہا اور جب مغرب کی طرف سے دباو آیا تو ایرانی حکام کی طرف سے آئی اے ای آئی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے ان کیساتھ تعاون کیا۔
حامد کرزئی اوراشرف غنی کی حکومت میں اگر انڈیا افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کررہا تھا تو وہ سب ایران کے تعاون کی مرہون منت تھا۔
ان دونوں حکومتوں میں افغان میڈیا امریکہ سے زیادہ ایران کے زیر اثر رہا اور وہاں سے پاکستان کیخلاف مسلسل زہریلا پروپیگنڈا ہوتا رہا لیکن جب طالبان دوبارہ فاتح بن کر افغانستان کے حکمران بنے تو پاکستان نے کوشش کی کہ طالبان اور ایران کے تعلقات خوشگوار رہیں اور اب کی بار اگر دونوں کے مابین تناو نہیں تو اس میں پاکستانی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے لیکن افسوس کہ ایران کا رویہ نہیں بدلا۔
جہاں تک بلوچ علیحدگی پسندوں کا تعلق ہے تو وہ دونوں ممالک کیلئے یکساں خطرہ ہیں اور امام خمینی کے انقلاب سے قبل شاہی دور میں دونوں ممالک ان کیخلاف مشترکہ کارروائی کرتے رہے لیکن اب صورت حال یوں بدلی ہے کہ ایران، ایرانی بلوچ عسکریت پسندوں کو تو کچلنا چاہتا ہے لیکن پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کو طاقتور بنانا چاہتا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سی پیک اور انڈیا کیساتھ اس کی قربت ہے۔
ایران سمجھتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کی صورت میں اسکے چابہار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اسلئے وہ پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کو اپنے سیف ہاؤسز میں رکھتا ہے (گلزار امام شنبے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایران کے سیف ہاؤس میں رہے) اور دوسری طرف انڈیا کے کلبھوشن یادیو جیسے کرداروں کو اپنی دستاویزات کیساتھ پناہ دیتا ہے۔
ماضی میں پاکستان جنداللہ کے درجنوں اہلکاروں کو گرفتار کرکے ایران کے حوالے کر چکا ہے لیکن ایران کیطرف سے پاکستان کو مطلوب افراد کبھی پاکستان کے حوالے نہیں کئے گئے۔
ماضی میں ایران الزام لگاتا رہا کہ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی پاکستان میں رہتے ہیں لیکن جب وہ گرفتار ہوئے تو ایک عرب ملک جارہے تھے اور انکے ہاں سے افغان حکومت کے ٹریول ڈاکومنٹس برآمد ہوئے۔ پاکستان چاہتا تو ایرانی دستاویزات کیساتھ چابہار میں قیام کرنے والے انڈیا کے حاضر سروس انٹیلی جنس افسر کلبھوشن یادیو کو ایران کیخلاف بہت بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا تھا تاہم اس نے ایسا نہیں کیا لیکن افسوس کہ ایران کے رویے میں پھر بھی تبدیلی نہ آئی۔
علیحدگی پسند عناصر کی سرکوبی کیلئے دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کا ایک میکنزم بھی موجود ہے لیکن نہ جانے کیوں اب کی بار ایران نے سفارت اور سرحدی رابطوں کو بالائے طاق رکھ کر بلوچستان میں حملہ کردیا۔
پاکستان نے فوری طور پر سفارتی محاذ پر شدید احتجاج تو کیا لیکن ساتھ ہی درون خانہ رابطوں کے ذریعے ایران سے کہتا رہا کہ وہ اسے اپنے کسی افسر کی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لے لیکن ایران مصر رہا کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا ایران کوئی ثبوت بھی نہ دے سکا کہ وہاں ایرانی بلوچ عسکریت پسند تھے چنانچہ پاکستان جواب دینے پر مجبور ہوا اور واضح فرق یہ ہے کہ ایرانی حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ پاکستانی کارروائی میں جو لوگ نشانہ بنے وہ انکے شہری نہیں تھے۔
ایران کو یہ تو پتہ چل گیا کہ پاکستان عراق یا شام نہیں ہے لیکن نہ تو پاکستان کو معاملے کو مزید آگے بڑھانا چاہئے اور نہ ایران کو کیونکہ اس سلسلے کا دونوں میں سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ فائدہ ہوگا تو صرف اسرائیل کا ہوگا اور نقصان ہوگا تو صرف فلسطینیوں کا ہوگا کیونکہ ایک تو غزہ کے معاملے سے توجہ ہٹے گی اور دوسری طرف فلسطینیوں کے حامی دو ممالک کی توانائیاں اسرائیل کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف صرف ہوں گی۔
پاک ایران تناؤ کا فائدہ اسرائیل کے بعد کسی اور قوت کو ہوسکتا ہے تو وہ بلوچ علیحدگی پسند ہیں جو ایران کیلئے بھی خطرہ ہیں اور پاکستان کیلئے بھی۔ ان سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون ضروری ہے۔
ایران اگر باہمی طور پر پاکستان کیساتھ معاملے کو حل نہیں کرسکتا تو دونوں ممالک چین کی ثالثی میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ