آزاد کشمیر میں، ریاستی سیاسی جماعتیں، کم وبیش، بالکل غیر موثر ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان کا وجود نظریہ ضرورت کے تحت برقرار رکھا گیا ہے۔ معتبریت کے بڑے نام، کے ایچ خورشید، سردار قیوم خان، سردار ابراہیم خان، سردار سکندر حیات خان، ممتاز حسین راٹھور، میاں غلام رسول، صاحب زادہ اسحاق ظفر، خالد ابراہیم خان اور دوسرے نام ایک ریفرنس کی حد تک باقی ہیں۔ کشمیریات کا ذمہ دار ڈسپلن ناقص ہے۔ ذمہ داران کو کیس کی جیورسپروڈنس کی قطب نماء کا سرے ہی سے کوئی ادراک نہیں۔
پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں کا آزاد کشمیر میں داخلہ، نہ صرف آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کی خلاف ورزی ہے، بلکہ ان سیاسی جماعتوں کی آمد سے کشمیر کیس کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے کشمیر کیس سے دوری اختیار کی اور اقتدار میں آنے کے لئے، اپنی معتبریت اور کشمیر کیس کو بے آبرو کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کا آزاد کشمیر میں ووٹر مقامی ریاستی باشندہ ہے۔ اپنی معتبریت کھونے اور کشمیر کیس کو نقصان پہنچانے میں یہاں کے الیکٹورل کالج (ووٹر) کا برابر کا حصہ ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکٹورل رجسٹر میں تبدیلی لانے کی صلاحیت بہت کمزور ہوگئی ہے۔ اس صلاحیت کے کھو جانے کے احساس کو زندہ کرنا بہت ضروری ہے۔ تبدیلی کی صلاحیت کو بحال کرنا اب بہت ضروری ہے۔
آزاد کشمیر کے اقتدار کا نصف سے زیادہ حصہ، اور اختیار کونسل کے چیئرمین(وزیراعظم پاکستان) اور اس کے نامزد کردہ غیر ریاستی ممبران کے پاس ہے۔ 1974 سے لے کر آج تک، چیئرمین کونسل سے آئینی اختیارات اپنے پاس رکھنے، کے سلسلے میں، کوئی سوال نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ صورتحال آزاد کشمیر اسمبلی میں یا کسی دوسرے فورم پر کبھی زیر بحث آئی۔
اب جب کہ پاکستان میں 8 فروری 2024 کو انتخابات ہونے والے ہیں، یہ ضروری ہے کہ آزاد کشمیر میں موجود سیاسی جماعتیں، اپنی پاکستانی Parent سیاسی جماعت کے آئین اور منشور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ کشمیر کیس کو یو این ٹمپلیٹ کی روشنی اور UNCIP RESOLUTIONS کے تحت آزاد کشمیر میں سنبھالی ذمہ داریوں کے لئے کیا پروگرام پیش کر رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے الیکٹورل رجسٹر میں موجود ووٹر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستی سیاست کی معتبریت اور کشمیر کیس کی جیورسپروڈنس کی حفاظت کرے۔
آل پارٹیز کشمیر کانفرنس اور کوٹلی کانفرنس کے ایجنڈے پر یہ سوال سر فہرست ہونا چاہئے تھا۔