ذوقِ پرواز کے خمار میں پرندے جب حدِّ افلاک سے بھی آگے نکل جانے کی ٹھان لیں تو اُن کے پر خَلا کی وسعتوں میں سَمت کا احساس کھو کر جھڑنے لگتے ہیں۔ اُنہیں اس وقت تک اپنی بے بال وپری کا اندازہ نہیں ہوتا جب تک وہ بے جان سا لوتھڑا بن کر زمین پرآ نہیں گرتے۔ خوفِ خدا سے بے نیاز رعونت شعار خود پرست بھی ایک نہ ایک دن اِسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بلند منصب پر جلوہ افروز ہونے کے لئے، تسبیحِ روز وشب کا دانہ دانہ شمار کرنے والے جسٹس اعجاز الاحسن یکایک سنہری حاشِیے والی سیاہ ریشمی عبا الماری میں چھوڑ کر، بُکّل مارے، چہرہ چھپائے، ایوانِ عدل کے عقبی دروازے سے یوں گھر کو نکل گئے جیسے ذرا سی بھی دیر ہوگئی تو کوئی آسیبی شکنجہ انہیں جکڑ لے گا۔
پاکستان کو مستقیم راستوں سے ہٹا کر عدمِ استحکام اور انتشار کے دلدلی جنگلوں کی طرف دھکیل دینے والے عدالتی فیصلوں کی لمبی قطار ہے۔ جسٹس منیر سے جسٹس ارشاد حسن خان تک، غیرجمہوری اقدامات کو خلعت جواز پہنانے اور آمروں کو ملک کی تقدیر سے کھیلنے کی کھلی چھُوٹ دینے کی متعفّن مثالیں عدل کی بے چہرگی کا ماتم کررہی ہیں۔ جسٹس منیر کے بقول ’’انقلاب اپنی کامیابی کی دلیل خود ہوتا ہے۔‘‘ سو مان لیتے ہیں کہ جب کوئی بندوق بردار انقلابی، ریاست پر قابض ہوجاتا ہے تو مُنصفی کو نوکری سمجھنے والوں کے پاس فدویانہ اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
اس ناقابلِ فخر ماضی کے باوجود، عدلیہ میں اس طرح کی جتھہ بندی کبھی نہیں دیکھی گئی جو پانامہ سے شروع ہوکر جسٹس عمرعطا بندیال کی رخصتی تک جاری رہی۔ یہ وہ دور تھا جب ججوں کے ایک مخصوص ’’طائفے‘‘ نے جنم لیا جو اپنے مَنصَب کے تقاضوں، اپنے حلف کے تقدّس، اپنے ضابطۂِ اخلاق کی حُرمت اور آئین وقانون کے تقاضوں سے بے نیاز ہوکر، انگریزی محاورے کے مطابق’’ چائنا شاپ میں گھُس آنے والا منہ زور بیل‘‘ (A bull in a china shop) بن گیا۔ میڈیا نے اس طائفے کے لئے ہم خیال (Like-minded) ججوں کی اصطلاح وضع کی۔ ’’ہم خیال طائفے‘‘ نے اُن اہداف ومقاصد کو گود لے لیا جنہوں نے طاقت کے روایتی زچّہ خانے میں جنم لیا تھا۔ اعجاز الاحسن اس طائفے کے ایسے مرکزی کردار ٹھہرے جو ’’طائفہ انصاف‘‘ کے آسمان پر قُطبی ستارے کی طرح جگمگاتے رہے۔
میں کئی بار معروف میگزین ’’دی سنڈے گارڈین‘‘ میں 6نومبر2016کو شائع ہونیوالے ایم ڈی۔نلاپت (M.D.Nalapat) کے آرٹیکل کا حوالہ دے چکا ہوں جس میں بتایا گیا تھا کہ ’’نوازشریف کو 2017کے وسط میں منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ مشرّف جیسے فوجی انقلاب کے بجائے، نوازشریف کو فارغ کرنے کا کام سپریم کورٹ سے لیاجائے گا جو اُسے کرپشن کا مرتکب قرار دے کر اس کے خلاف مقدمات کا آغاز کرے گی۔ اس مقصد کیلئے پانامہ پیپرز کو بہانہ بنایاجائے گا۔‘‘ نوازشریف کی فراغت کے بعد، طاقت کے سرچشموں کا اگلا ہدف اس کی واپسی کا راستہ روکنا اور ’’دوسالہ محنت‘‘ کو ضائع ہونے سے بچانا تھا۔ ’’طائفے‘‘ نے اِس ’’عظیم قومی مقصد‘‘ کو الہامی تلقین کی طرح دل وجان میں کچھ اس طرح سمولیا کہ طاقت کے سرچشمے بھی انگلیاں دانتوں تلے دابے تصویرِ حیرت بن گئے۔
اعجاز الاحسن، پانامہ بینچ کے سب سے جونیئر رُکن تھے لیکن اپنے’’جوہرِ قابل‘‘ کی بنا پر وہ ’’طائفے‘‘ کی مرکزی روح بن گئے۔ اُن کا جذبۂِ بے اختیارِ شوق کچھ اس طرح چھَلکا جا رہا تھا کہ ’’طائفہ‘‘ کے منشورِ ’’رغبت وعناد‘‘ کی پاسداری میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ چیف جسٹس آئے یا گئے ،اعجازالاحسن ’’چائنا شاپ‘‘ میں مسلسل اودھم مچاتے رہے۔ ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمرعطا بندیال جس کسی کو بھی مخصوص سانچے میں ڈھلے ٹیکسالی فیصلے کی ضرورت محسوس ہوئی، اُس نے اعجاز الاحسن کو پہلو میں بٹھایا اور مراد پائی۔ ’’پانامہ‘‘ ایسا عجیب الخلقت بارہ سنگھا تھا جس کا ہر سینگ تاریخِ عدل کا عجوبہ ٹھہرا۔ ایک سینگ جے۔آئی۔ٹی کی نگرانی کرنے والے تین رُکنی بینچ کی نمائندگی کررہا تھا۔ اعجاز الاحسن اس کا حصہ تھے۔ دوسرا سینگ، نیب کی طرف سے قائم کردہ ریفرنسز سننے والی احتساب عدالتوں کی نگرانی اور چوکسی کے لئے تھا تاکہ وہ پانامہ کے فیصلے کی روح سے بھٹک نہ جائیں۔ اعجاز الاحسن یکّہ وتنہا اس ’سینگ‘ کے والی وارث تھے۔ جج بشیر اور جج ارشد کے فیصلے، اعجازالاحسن ہی کا اعجاز تھے۔ وہ چاہتے تو بہ آسانی کہہ سکتے تھے کہ میں پانامہ بینچ میں نوازشریف کے خلاف فیصلہ دے چکا ہوں اس لئے احتساب عدالتوں کی نگرانی تقاضائے انصاف کے منافی خیال کرتا ہوں۔ لیکن انہیں ’’تقاضائے طائفہ‘‘، ’’تقاضائے انصاف‘‘ سے کہیں زیادہ عزیز تھا۔ سو بصد خوشی یہ ذمہ داری قبول کی اور ’’طائفہ جاتی‘‘ جوش وجذبہ کے ساتھ جج بشیر اور جج ارشد ملک کی رگِ جاں دبوچتے ہوئے پانامہ فیصلے کی روح کے عین مطابق حکم نامے کشید کرلئے۔ بارہ سنگھے کے تمام سینگوں سے لپٹے ، عزم راسخ کے ساتھ ’طائفے‘ کے بازوئے شمشیر زن بنے، ہر اُس فیصلے میں شریک رہے جس کی بنیاد ’’حلفِ طائفہ‘‘ کے مطابق رغبت وعناد پر تھی۔ نوازشریف کو پارٹی سربراہی سے فارغ کرنا ہو یا 63 (1-F) کی تشریح کرتے ہوئے تاحیات نااہلی، ’سوموٹو‘ اختیار صرف چیف جسٹس کی صوابدید تک محدود کرنا ہو یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو معطل کرنا، رسوائے زمانہ ڈیم فنڈ کا معاملہ ہو یا سپریم کورٹ ریویو آف جج منٹ کیس، سینیٹ میں خفیہ ووٹ ہو یا جسٹس بندیال کی خوشدامن کی آڈیو لیکس کا قصّہ، پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے کے ووٹس منسوخ قرار دے کر حمزہ کی جگہ پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ سونپنا ہو یا پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات کی تاریخ کا تعیّن، اعجاز الاحسن ہر اہم مقدمے میں ’طائفہ‘ کے آسمان پر قُطبی ستارے کی طرح دمکتے رہے۔ یہاں تک کہ معروف کورٹ رپورٹر حسنات ملک کے بقول عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد رکوانے کے لئے مظاہر نقوی کو ہمراہ لئے جنرل باجوہ کے گھر پہنچ گئے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا _ ’’کسی میں حیا نہ رہے تو وہ جو مرضی کرے۔‘‘ ’’طائفہ‘‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس کی آنکھ کا پانی مر گیا ۔ حیا رُخصت ہوئی اور ضمیر گہری نیند سوگیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بنتے ہی، ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک محیط ’’عہدِ طائفہ‘‘ تمام ہوگیا۔ ’’طائفے‘‘ کے بلند پرواز پرندوں کے پَر جھڑنے لگے۔ پہلے کڑے احتساب کے شکنجے میں آئے مظاہر علی نقوی رخصت ہوئے۔ پھر آنے والے نامہرباں موسموں کی چاپ سُن کر اعجازالاحسن بھی گھر چلے گئے۔ ’’ہم خیالی‘‘ سے ’’ہم زوالی‘‘ کا سفر تمام ہوا۔
’’طائفہ‘‘ تو رزقِ خس وخاشاک ہوگیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کو ایک لایعنی ریفرنس میں جکڑ کر تماشا کرنے اور اُن کی بیمار اہلیہ کو لاٹھی ٹیکتے عدالتوں کی راہداریوں میں ٹھوکریں کھاتے دیکھ کر ٹھٹھا کرنے والے اپنا اپنا نامۂِ اعمال بائیں ہاتھ میں تھامے رخصت ہوگئے۔ لیکن وہ ’پاکستان ‘ ، انصاف کے لئے کس دروازے پر دستک دے جسے 2017 ء میں دھکا دیکر زوال وپستی کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا گیا؟ وہ عوام کون سی زنجیرِ عدل ہلائیں جن کی دو وقت کی روٹی بھی محال کردی گئی۔ ’طائفے‘ کے لگائے زخموں کی مسیحائی کیسے ہو؟ کون کرے؟
بشکریہ روزنامہ جنگ