پاکستان کے تمام انتخابات میں کالا دھن ، کالی دولت ناجائز دولت یا غیر قانونی دولت استعمال ہوتی رہی ہے۔کالے دھن اور غیرقانونی دولت کے بے محابہ استعمال نے ہمیشہ انتخابی نتائج اور سیاسی منظر نامے کو دھندلانے اور جمہوری عمل کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں۔کارپوریٹ دنیا میں پیسہ کی ریل پیل کو اِس قدر چیک کیا جاتا ہے کہ ایک عالمی مالیاتی ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ملکوں کی درجہ بندی کرکے کسی کو سرخ ،کسی کو سرمئی اور کسی کو سفید فہرست میں شامل کر دیتا ہے مگر ہمارے آئینی اور ریاستی اداروں میں یہ اہلیت نہیں کہ انتخابی معیشت میں کالے دھن کا سراغ لگائے اور اس کے استعمال کی ٹریکنگ کر سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ یہ کام کرتے ہی نہیں بلکہ چشم پوشی کرتے ہیں۔ ان اداروں کو معلوم ہے کہ کالا دھن،خفیہ فنڈز اور فارن فنڈز انتخابات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہ راز طشت ازبام کردیں تو وہ لوگ بھی بے نقاب ہو جائیں گے جن کو سٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا ہے۔ انتخابات میں کالے دھن کے استعمال سے چشم پوشی کا فائدہ نان سٹیٹ ایکٹرز بھی اٹھاتے ہیں اور مافیاز بھی۔اِس سے زیادہ پریشان کن بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کالے دھن کے استعمال سے جمہوری نظام ناپاک اور انتخابات کی ساکھ پر دھبے لگتے ہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ناجائز دولت نامعلوم ذرائع سے انتخابی نظام میں داخل ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان(ECP) ،سٹیٹ بنک آف پاکستان،سرکاری تحقیقاتی و خفیہ اداروں یا غیر سرکاری سول سوسائٹی انجمنوں (NGOs)میں یہ استعداد، قابلیت اور صلاحیت نہیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کی مالی اعانت ، خفیہ رقوم کی آمد و خرچ اور انتخابات میں بے تحاشہ اخراجات کا سراغ لگا سکیں ۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ کمرشل /انوسٹمنٹ بینکوں، پرائیویٹ کمپنیوں اور رئیل اسٹیٹ سے وابستہ لوگ انتخابات میں خاموش اور خفیہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور بالآخر بھاری فائدے اٹھاتے ہیں۔علاوہ ازیں پرنٹرز، پینٹرز، ایڈورٹائزرز، کیٹررز، ڈیکوریٹرز، ٹرانسپورٹرز، پرائیویٹ جیٹ آپریٹرز، سوشل میڈیا، چینل آپریٹرز، کموڈٹی ڈیلرز، تنخواہ دار ورکرز بھی کالے پیسہ کے استعمال سے مستفیدہوتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اربوں روپے کی رقم ہاتھ بدلتی ہے مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP)کے پاس ایسا میکنزم نہیں جو سراغ لگا سکے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس پیسہ کہاں سے اور کیسے آتا ہے اور کہاں خرچ ہوتا ہے؟پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (PILDAT) اورفری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے اربوں روپے کے انتخابی فنڈز کے بہا(منی ٹریل) کا سراغ لگانے اور ٹریک کرنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی پر سوال اٹھایا مگر جس جواب ندارد۔ اعداد وشمار، تحقیقی مواد کی کمی اور سیاسی جماعتوں کا عدم تعاون بھی کالے دھن کی ٹریکنگ میں بڑی رکاٹیں ہیں۔
انتخابی قوانین تمام امیدواران کو کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت (انتخابی مہم کے لیے) ایک الگ بینک اکانٹ کھولنے کا پابند بناتے ہیں۔ تاہم ان پراس مخصوص اکانٹ میں جمع ہونے والے فنڈز کے ذرائع ظاہر کرنے کی کوئی شرط لاگونہیں۔قومی اسمبلی کی ایک نشست کا امیدوار قانونی طور پر ایک کروڑ روپے اور صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار 40 لاکھ روپے تک خرچ کرسکتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتخابی امیدوار کی مہم پر نامعلوم افراد کی جانب سے اخراجات کا حساب دینا امیدوار اور سیاسی جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے۔یہ وہ خلا ہے جو کسی انتخابی امیدوار یا جماعت کو ناجائز اور کالی دولت کے بھرپوراستعمال کا موقع دیتا ہے جو بالآخر اس کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
موجودہ قواعدوضوابط کے تحت کالے دھن یا ممنوعہ فنڈنگ کے استعمال کی نشاندہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے مگر وہ یہ کام کرنے میں کما حقہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مروجہ قوانین کی تنفیذ اور فالو اپ غیر موثر ہیں۔ انتخابات 2013 اور 2018 میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی انتخابی مہم میں خفیہ فنڈز، فارن فنڈز اور ممنوعہ فنڈز کیاستعمال کا معاملہ منظرعام پر آیا جس نے انتخابی نتائج پر حیرت انگیز اثرات مرتب کئیتھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انتخابات اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کو کرنے کے بہت سے کام ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مالی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قواعدوضوابط کی خامیاں دور کرنے کے لیے اس کے پاس انتخابات سے قبل جوکھلا وقت ہوتا ہے ،اسے وہ کیوں ضائع کر دیتا ہے؟سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں سے انتخابی اخراجات کے حسابات طلب کرنا اور اس کی جانچ پڑتال جان جوکھوں کا کام ہے۔ سیاسی جماعتیں عموما الیکشن کمیشن کو مکمل حساب کتاب دینیسے گریز کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور جیتنے والے امیدواروں کے ڈیکلیئرڈ اخراجات ،اصل اخراجات سے بہت کم دِکھائے جاتیہیں۔الیکشن کمیشن نے آج تک کوئی منتخب ممبر اِس بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جس نے مقررہ حد سے زیادہ انتخابی اخراجات کئے ہوں۔
انتخابی اصلاحات کی بات تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہے مگر ذرائعِ آمدن اور اخراجات کی مدات چھپاتی ہیں۔ جس طرح قبل ازانتخاب دھاندلی (Pre-Poll Rigging)اور بعداز انتخاب دھاندلی (Post-Poll Rigging)ناجائز ہے اس طرح مالیاتی دھاندلی (Financial Rigging)بھی ناجائز ہے۔رائے دہندگان کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ سیاسی جماعتوں کو کالا دھن، ممنوعہ فنڈز ، خفیہ فنڈز اور فارن فنڈز کون، کس کو اور کن ذرائع سے فراہم کرتا ہے۔ جب تک یہ کام نہیں ہو گا پیسہ کی بنیاد پر تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کیمواقع (Level Playing Field) نہیں ملیں گے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا باقاعدہ مالیاتی نظام نہیں۔جماعت اسلامی میں وصول شدہ رقوم کی رسید کاٹی جاتی ہے، ہرخرچ کا وچر(Voucher) بنتا ہیاور اخراجات کا باقاعدگی سے چارٹرڈ اکانٹنٹ آڈٹ کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کے ہر کارکن کو حق حاصل ہے کہ وہ پارٹی کے حسابات چیک کرے۔ اگر جماعت اسلامی مالیات کا نظام بنا سکتی ہے تو دوسری جماعتیں کیوں نہیں ؟ آج کے دور میں کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے آمد و خرچ کا حساب رکھنا بہت آسان ہے۔ اس کے لئے سیاسی جماعتوں کا آمادہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مالیاتی نظام کی موجودگی سے پارٹی میں نہ صرف شفافیت آتی ہے بلکہ اس کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بہرحال الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کالے دھن،خفیہ فنڈز، ممنوعہ فنڈز اور فارن فنڈز کو استعمال ہونیسے روکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کالے دھن کی پیداوار ہو گی۔