انتخابی ماحول کیوں نہیں بن رہا؟ : تحریر مزمل سہروردی


ایک سوال سب کر رہے ہیں کہ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، ملک میں انتخابی گہما گہمی کیوں نظر نہیں آرہی؟

لوگوں کا یہ سوال جائز ہے کہ جیسے شادی والے گھر میں ایک چہل پہل اور گہما گہمی بتاتی ہے کہ اس گھر میں شادی ہے، ایسے ہی ملک میں سیاسی گہما گہمی بتاتی ہے کہ عام انتخابات ہو رہے ہیں۔

اگر شادی والے گھر میں گہماگہمی چہل پہل نہ نظر آئے تو شادی پر شکوک و شبہات اٹھتے ہیں، ایسے ہی گہما گہمی کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں انتخابات پر شکوک و شبہات اٹھ رہے ہیں۔ لوگوں کی یہ ر ائے درست ہے کہ جتنا مرضی یقین دلا دیں کہ واقعی ملک میں آٹھ فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں۔ لیکن جب تک لوگوں کو سڑکوں پر گلیوں بازاروں میں انتخابی ماحول نظر نہیں آئے گا، لوگ کیسے یقین کریں کہ واقعی انتخابات ہو رہے ہیں۔

یہ رائے بھی موجود ہے کہ نواز شریف تو جاتی عمرہ سے نکل ہی نہیں رہے ۔ وہ جب سے آئے ہیں انھوں نے صرف ایک استقبالی جلسہ سے خطاب کیا ہے اور ایک رسمی قومی خطاب کیا ہے، اس کے علاوہ ان کی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہے۔

پارلیمانی بورڈز کے اجلاس ہوئے ہیں۔ لیکن لوگوں کی رائے میں یہ کوئی سیاسی سرگرمی نہیں۔ لوگوں کی رائے میں نواز شریف گھر سے نکل ہی نہیں رہے، اس وجہ سے بھی انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔ دوستوں کی رائے ہے کہ جو جماعت انتخابات میں سب سے پسندیدہ جماعت کا درجہ رکھتی ہے جب وہ ہی خاموش ہے تو انتخابات پر شکوک و شبہات کیوں نہ ہوں، لوگ کیوں نہ سوال کریں کہ کیا واقعی انتخابات ہو رہے ہیں۔

میں نے دوستوں سے کہا، دیکھیں بلاول پورے ملک میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ روزانہ جلسوں، ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ملک بھر کے طوفانی دورے کر رہے ہیں، آپ کو بلاول کی سیاسی سرگرمیاں دیکھ کر کیوں یقین نہیں آرہا کہ واقعی انتخابات ہو رہے ہیں۔

جب بلاول یہ کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کیا، اقوام متحدہ سے بھی قرارداد منظو ر کرالیں تب بھی انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوںگے، اس کے باوجود ملک میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔

کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمن روز کہتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہونی چاہیے۔ ان کے بیانات کی وجہ سے ملک میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔

ان کے بیانات ماحول بننے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیکن میں مولانا کو عام انتخابات کا اتنا بڑا کھلاڑی نہیں سمجھتا کہ وہ ملک میں انتخابی ماحول بننے میں رکاوٹ بن جائیں۔ کے پی اور بلوچستان کی حد تک تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ انتخابی ماحول نہیں بنا رہے۔ لیکن پنجاب، کراچی اور سندھ میں تو انھوں نے انتخابی ماحول نہیں بنانا ہے۔

چونکہ پنجاب میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا لہذا یہی ملک میں انتخابی ماحول نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کراچی میں تو ایم کیو ایم نے ٹکٹیں تقسیم کر دی ہیں، ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے بھی ٹکٹیں تقسیم کر دی ہیں۔ کافی حد تک کراچی میں امیدواران نے انتخابی مہم شروع بھی کر دی ہے۔ تحریک انصا ف کے امیدوار بھی نظر آرہے ہیں، صدر مملکت کا بیٹا کراچی سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔

جہاں تک اندرون سندھ کی بات ہے تو وہاں اکیلی پیپلزپارٹی ہے۔ وہ پندرہ سال سے مسلسل اقتدار میں ہے، ان کی سندھ کی گرفت بہت مضبوط ہے۔

انھوں نے سندھ میں ٹکٹیں بھی تقسیم کر دی ہیں، ان کے مقابلے میں گزشتہ انتخابات میں بھی کوئی نہیں تھا، اب بھی کوئی نہیں ہے۔ جی ڈے اے نہ پہلے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل تھی نہ اب اس میں اتنی سیاسی طاقت ہے کہ ان کا مقابلہ کر سکے۔

فنکشنل لیگ نے کبھی پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ سیاسی موڈ نہیں دکھایا جس کی ضرورت ہے۔ خیر سے اس پارٹی سربراہ پیر صاحب گھر سے ہی نکلتے۔ انھیں انتظار ہے کب اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان لڑائی ہو جائے اور ان کی لاٹری نکل آئے۔ لیکن پندرہ سال سے تو یہ لڑائی نہیں ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کی حد تک اپنی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل بنا ہی لیتی ہے۔

جے یو آئی نے سندھ میں کچھ زور پکڑا ہے۔ لیکن جب مولانا بھی گھر بیٹھے ہیں اور پیر صاحب بھی گھر بیٹھے ہیں تو سندھ میں انتخابی ماحول کیسے بنے۔ سندھ میں کبھی ماحول نہیں بنا، لوگوں کو سندھ کے نتائج کا پہلے ہی اندازہ ہوتا ہے۔لیکن پیپلزپارٹی سندھ میں مہم چلا رہی ہے۔ بیچاری اکیلے جتنا ماحول بنا سکتی ہے، بنا رہی ہے۔

تحریک انصا ف کی سیاسی مجبوریاں سب کے سامنے ہیں۔ وہ تو ماحول بنانے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں۔ پارٹی کے بانی کو سزا ہو چکی ہے، وہ نا اہل بھی ہو گئے ہیں،ا ن کے کاغذات بھی مسترد ہو گئے ہیں۔ انھوں نے ایک نہایت غیر سیاسی شخصیت کو اپنی جگہ چیئرمین بنایا ہے۔

بیرسٹر گوہر ایسی سیاسی شخصیت نہیں ہیں کہ وہ ملک گیر انتخابی مہم چلا سکیں حالانکہ ان کو مکمل آزادی نظر آرہی ہے، میڈیا ان کو کور کرتا ہے، ان پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے، لیکن وہ عوامی سیاستدان نہیں ہیں کہ ملک گیر انتخابی مہم چلا سکیں اور انتخابی ماحول بنا سکیں۔

کچھ رنگ شیر افضل مروت نے بھرا تھا۔ لیکن وہ تحریک انصاف کے اندر چل ر ہی سیاست کا شکار ہو کر آؤٹ ہو گئے ہیں۔ اب وہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو ماحول بنائے۔ تحریک انصاف نے ایسے ہی انتخابات مین حصہ لینا ہے، ان کا مظلومیت کا کارڈ ہی ان کی مہم ہے۔

مسئلہ یہی ہے کہ پنجاب میں بلاول کے جلسوں اور ریلیوں کے باوجود پنجاب میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔ بلاول لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

لیکن لاہور میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے کاغذات منظور ہو گئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کا کارکن باہر نہیں نکل رہا۔ میں سمجھتا ہوں پنجاب اور پورے ملک میں انتخابی ماحو ل تب بنے گا جب میاں نواز شریف باہر نکلیں گے۔ ان کی غیرفعالیت کی وجہ سے ماحول نہیں بن رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیو ں نہیں نکل رہے؟ میں سمجھتا ہوں وہ اپنے اہل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ کلین چٹ ملنے کے انتظار میں تھے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ الیکشن لڑنے کے اہل بھی ہو گئے ہیں۔ ان کے کاغذات بھی منظور ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب نے ٹکٹیں بھی جاری کر دی ہیں۔

انھوں نے پنجاب کی ہر سیٹ پر امیدوار کھڑا کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پندرہ جنوری سے ملک بھر میں ساٹھ جلسوں کا ایک پروگرام بھی بنا لیا ہے۔

نواز شریف زیادہ جلسے کریں گے۔ ان کے ساتھ مریم نواز اور شہباز شریف بھی جلسے کریں گے۔ حمزہ شہباز بھی کچھ جلسے کریں گے۔ اس طرح پوری شریف فیملی انتخابی میدان میں نظر آئے گی۔ میڈیا میں بھی نظر آئے گی۔اس لیے مجھے لگتا ہے پندرہ فروری کے بعد ملک بھر میں انتخابی گہما گہمی شروع ہو جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس