قائدِاعظم سے تاریخی اہمیت کا مکالمہ : تحریر الطاف حسن قریشی


ایکٹ 1935ء میں اقلیتوں کے حقوق کی نگہبانی کیلئےوائسرائے اور صوبائی گورنروں کو خصوصی اختیارات سونپے گئے تھے جو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اِس تکلیف دہ صورتِ حال سے نمٹنے اور مسلم لیگ کا پروگرام لوگوں تک پہنچانے کیلئے قائدِاعظم نے مجلّہ ’منشور‘ کا 1938ء میں اجرا کیا جس کی ادارت اپنے معتمد ساتھی سیّد حسن ریاض کے سپرد کی۔ اُنہوں نے قائدِاعظم کے ساتھ عہدساز مکالمہ کیا جس نے قراردادِ لاہور کی طرف پیش قدمی کا عمل تیزتر کر دیا۔ منشور کے ایڈیٹر لکھتے ہیں ’’1938ء سے مَیں نے یہ خدمت اپنے ذمے لی کہ مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام مسلمانوں کو سمجھاؤں۔ مسلم لیگ کا ایک نصب العین تھا جو اَکتوبر 1937ء ہی میں خوب سوچ سمجھ کر قائم کیا گیا تھا، مگر صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد جس طرح آئینی تحفظات بیکار ثابت ہوئے، اُسے دیکھ کر علامہ اقبال کی آواز کانوں میں گونجنے لگی اور وُہ خطبۂ صدارت یاد آنے لگا جو اُنہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد میں پڑھا تھا جسے مَیں نے خود سنا تھا۔ قائدِاعظم دہلی میں مقیم تھے۔ مَیں نے ٹیلی فون پر اُن سے وقت لیا اور اُسی روز شام کو اُن سے ملا۔

’’مَیں نے قائدِاعظم سے پوچھا: ’’مسلم لیگ اب کس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہے؟ کیا مسلمانوں کیلئے کچھ اور تحفظات لینے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ صرف آئینی تحفظات کیلئے کوشش بےفائدہ ہے اور ہمیں اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی طاقت حاصل کرنی چاہیے۔ اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کلی طور پر آزاد اَور خودمختار ہوں۔ قائدِاعظم نے فکرآگیں لہجے میں فرمایا: ’’اقلیّتی صوبوں میں مسلمانوں کی حفاظت کیونکر ہو گی؟‘‘ مَیں نے کہا: ’’ہندو اکثریت اور مسلم اکثریت کے علاقوں کی خودمختار دَولتوں کے درمیان دوستانہ معاہدات سے یا توازنِ قوت سے۔‘‘ اُنہوں نے پوچھا ’’ کیا آپ نے سندھ مسلم کانفرنس کی قرارداد پڑھی ہے؟‘‘

’’جی ہاں! پڑھی ہے،مگر سندھ مسلم کانفرنس مسلمانوں کیلئے مطمحِ نظر معیّن نہیں کر سکتی اور اِس کا اعلان بھی نہیں کر سکتی۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا کام ہے کہ نئے حالات کے لحاظ سے ایک نصب العین معیّن کرے یا آپ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔‘‘ قائدِاعظم مسکرا کر بولے: ’’مَیں سندھ مسلم کانفرنس میں شریک تھا۔‘‘

’’جی! آپ تھے۔ کسی مقدمے کے سلسلے میں آپ کا جانا ہوا۔ اتفاق سے اُسی زمانے میں کانفرنس تھی اور آپ اُس میں شریک ہو گئے۔ پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ قرارداد محض اِس لیے پاس کی گئی ہو کہ دیکھیں ہندوؤں پر اُس کا کیا اثر ہوتا ہے۔‘‘ میری زبان سے یہ نکلا ہی تھا کہ قائدِاعظم ترچھے ہو گئے اور تیور بدل کر بولے ’’ہم دکھاوے کیلئے قرارداد پاس نہیں کرتے۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’آپ فرمائیں کہ وہ قرارداد آپ کی ایما سے پیش اور منظور ہوئی۔‘‘

’’کیا آپ نے میرٹھ میں نواب زادہ لیاقت علی خاں کا خطبۂ صدارت سنا تھا؟‘‘ قائدِاعظم نے پوچھا۔ ’’جی ہاں! سنا تھا، مگر سندھ کانفرنس ایک صوبے کی کانفرنس تھی اور میرٹھ کی کانفرنس ایک ڈویژن کی۔ پورے ہندوستان کے مسئلے میں اُن کی قرارداد اَور تقریریں سند نہیں ہو سکتیں۔ آپ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مجھے بتائیے میرے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟‘‘ قائدِاعظم کھڑے ہو گئے اور اَپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ جواب میں مَیں نے بھی اپنا ہاتھ اُن کی طرف بڑھایا۔ دونوں ہاتھ ملے اور قائدِاعظم نے فرمایا: ’’آؤ آج عہد کرتے ہیں کہ جب تک زندہ ہیں، اِسی مقصد کیلئے جدوجہد کریں گے۔‘‘ مَیں نے بھی اِس قول کا اعادہ کیا اور عہدوپیمان ہو گیا۔

جناب حسن ریاض نے آگے چل کر اِس عہد وپیمان کے فوری اثرات کا اِن الفاظ میں ذکر کیا ہے: قائدِاعظم بیٹھ گئے اور دَیر تک بڑے جوش سے بولتے رہے کہ ’’دس برس پہلے مَیں طے کر چکا ہوں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، کیونکہ ہندوؤں نے ساتھ رہنا ناممکن کر دیا ہے۔‘‘

یہ آخر 1938ء کا واقعہ ہے۔ مَیں نے اُس گفتگو کے بعد اُسی روش پر لکھنا شروع کر دیا اور قائدِاعظم نے ایک تدریج کے ساتھ لوگوں کی رائے اور خیال کا رُخ اِس نئے یا دس سال پرانے نصب العین کی طرف پھیر دیا، لیکن 1940ء کے آغاز میں اُنہوں نے اِس پر خاص زور دِیا اور اِنگلستان کے مشہور اَخبار ’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘ میں یہ صاف اعلان کیا:

’’ہندوستان کے حالات سے برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان تک اِس قدر ناواقف ہیں کہ ماضی کے تمام تجربات کے باوجود اُنہوں نے اب تک یہ نہیں سمجھا کہ یہ طرزِ حکومت ہندوستان کیلئے قطعی غیرموزوں ہے۔ وہ جمہوری طرزِ حکومت جو ایک جیسے عناصر پر مشتمل قوم کے تصوّر پر مبنی ہو جیسے انگلستان کے لوگ ہیں، ہندوستان جیسے ملکوںکیلئے بالکل مناسب نہیں ہو سکتا جن کی آبادی مختلف قوموں پر مشتمل ہو اَور یہی سادہ حقیقت ہندوستان کی تمام آئینی بیماریوں کی جڑ ہے …

’’جمہوریت کا تمام تصوّر اِس مفروضے پر مبنی ہے کہ وہ ایک قوم ہو، خواہ اِقتصادی اعتبار سے اُس میں کتنی ہی تقسیم کیوں نہ ہو۔ برطانویوں کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ ہندو دَھرم اور اِسلام دو مختلف اور اَلگ تہذیبوں کی نیابت کرتے ہیں اور اَپنی اصل روایات اور طرزِ زندگی میں اِس قدر مختلف ہیں جتنی یورپ کی اقوام ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دو مختلف قومیں ہیں اور اِس حقیقت کو جوائنٹ سیلیکٹ کمیٹی آن انڈین کانسٹی ٹیوشنل ریفارمز تک نے تسلیم کیا ہے جس کی رائے اِس معاملے میں بڑی وقیع ہے۔ اِس لیے مسلمان قوم کے پاس یہ سوال کرنے کی وجہ موجود ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان میں مغربی طرزِ جمہوریت کیوں زبردستی نافذ کی ہے اور پھر اِس طرح کہ اِسے ہندوستان کے حالات کے موافق کرنےکیلئے اُس پر کوئی حدودوقیود بھی عائد نہیں کیں …

’’اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ہندوستان میں ایک بڑی اور ایک چھوٹی قوم ہے، تو جو پارلیمنٹری طرزِ حکومت اکثریت کے اصول پر مبنی ہو گی، لازماً اُس کے معنی اکثریتی قوم کی حکومت ہو گی، اِس لیے مغربی جمہوریت ہندوستان کیلئے بالکل غیر موزوں ہے اوراِس کے ذریعے سیاسی جسم کے اندر مرض اور بیماری پیدا کرنا ہے۔‘‘ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ