حالات بہت سنگین ہیں…تحریر: مرزا تجمل جرال

چند روز قبل ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ایک بڑے نیوز چینل پہ اس بات کا بڑے وثوق کے ساتھ اعتراف کررہے تھے کہ انیس سو ستر(1970ء)میں ہونے والے قومی انتخابات میں تمام خفیہ رپورٹس اور عوامی سرویز کے مطابق جماعت اسلامی پہلے نمبر پہ تھی،
لیکن چونکہ مقتدر قوتوں کو یہ بات گوارا نہ تھی لہٰذا حسب روایت، نادیدہ ہاتھوں کو استعمال میں لاتے ھوئے ان نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا گیا جس کا المناک نتیجہ تقسیم پاکستان کی صورت میں سب کے سامنے ھے..
قومی انتخابات میں ان طاقتوں کی مداخلت کا یہ پہلا موقع نہیں تھا، اس سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی قومی انتخاب سے باھر رکھنے اور عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی ایک کامیاب سازش کی جا چکی تھی، اور بعد ازاں اسی ڈرامے کی اگلی قسط، ستر میں دھرائی گئی تھی، البتہ فرق یہ تھا کہ پہلی قسط میں ابھی مشرقی پاکستان والوں کی متحدہ پاکستان سے محبت کا پہلو غالب تھا لہذا تمام تر ذیادتیوں کے باوجود کہیں سے بھی پاکستان سے نفرت کانعرہ بلند نہ ہوا جبکہ ستر میں ملک کی داخلی صورت حال، مشرقی پاکستان والوں کا احساس محرومی اور مشرقی سرحد کا دشمن پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ھو چکا تھا
جس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا..
اس المناک سانحے کے ٹھیک چون سال بعد ایک بار پھر، مغربی پاکستان میں قومی انتخابات ہونے جارھے ہیں تو نہ جانے کیوں ایک بار پھر وھی سن ستر کا سارا نقشہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ھے..
پی ٹی آئی کی صورت میں ایک مقبول عوامی پارٹی کو اقتدار سے باھر رکھنے اور اپنی مرضی کی جماعتوں کوایوان اقتدار کی بالکونیوں کا مستقل باسی بنانے کی خطرناک سازشوں کی بازگشت زبان زد عام ھے،
ھماری ذاتی رائے ھے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود اگر عوامی رائے کے برعکس، انتظامی اداروں کو استعمال کرکے پاکستان تحریک انصاف کو اسی طرح اقتدار سے باھر رکھنے کی کوشش کی گئی جس طرح انیس سو ستر(1970ء)میں جماعت اسلامی کے خلاف کی گئی تھی تو ایک بار پھر پاکستان ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ھو سکتا ھے ،
ظاہری سیاسی منظر نامے اور معروضی حقائق کو سامنے رکھیں تو حالات بہت خطرناک رخ پر ہیں کبھی پی ٹی آئی کے عوامی نمائندوں کو اٹھا کر پس دیوار زنداں ڈالا جارھا ھے، کبھی انتخابی نشان پر پابندی تو کبھی کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا عمل…بہت ہی خطرناک صورتحال ھے،
دیگر جماعتوں پر ذیادہ توجہ دیئے بغیر ھم سمجھتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق “لیول پلئینگ فیلڈ“ نہ ملی تو پاکستان ایک بار پھر ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ھے،
مقتدر حلقوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ھوئے کسی ایک جماعت کی بجائے سب جماعتوں کے لئے مناسب انتخابی ماحول کی تشکیل اور عوام الناس کو تحفظ فراہم کرتے ھوئے منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی ہر ممکن کوشش کرتے ھوئے نہ صرف اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاھئے بلکہ اس عمل کے ذریعے ریاست پاکستان کی بقا اور اس کے استحکام کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاھیے ..
اگر ایسا نہ ھوا اور اپنی ناپسندیدہ سیاسی قیادت کو انتخابی میدان سے باھر رکھنے اور من پسند افراد کو آگے لانے کی کوشش کی گئی تو ایک بار پھر پاکستان کونہایت سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ھے..