بھٹو کی پھانسی کا ذمے دار کون؟ : تحریرمزمل سہروردی


سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے وران سوال سامنے آیا ہے کہ بھٹو کی غلط پھانسی کا ذمے دار کون ہے؟ کیا مارشل لاذمے دار ہے؟ عدلیہ ہے یا حکومت ہے؟

یہ سوال بھی سامنے ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی۔ پھر یہ کہا گیا کہ ہم کیسے طے کر سکتے ہیں کہ عدلیہ آزاد تھی یا نہیں۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے بارے میں بھی یہ سوال سامنے آیا ہے کہ ایک جج کے انٹرویو پر کیسے سارے عمل کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد بنچ کے کچھ ممبر یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ہم ماضی کے بند اور طے شدہ مقدمات کو دوبارہ کیسے کھول سکتے ہیں، ایسے تو سب دوبارہ آجائیں گے کہ ہمیں غلط سزا ہوئی تھی، یہ دیکھیں نئے شواہد سامنے آگئے ہیں، اس لیے سزا ختم کی جائے ۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ غلط پھانسی کا ذمے دار کون ہے؟ میں سمجھتا ہوں یہ سوالدرست نہیں ہے۔کیا مارشل لا کو ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ اگر غلط پھانسی ہوئی ہے تو ذمے دار عدلیہ ہی ہے۔ ذمے دار وہ ججز ہیں، جنھوں نے یہ مقدمہ سن کر پھانسی پر لٹکانے کی سزا دینے کا فیصلہ دیا۔

ہم کسی بھی حکومت کو عدلیہ کے کسی بھی غلط فیصلے کا ذمے دار قرار نہیں دے سکتے۔ فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے اور وہی اس کی ذمے دارہوتی ہے، اگر کوئی غلط فیصلہ ہوا ہے تو ججز اور بنچ ذمے دار ہے۔

مارشل لا تھا یا نہیں تھا، ججز پر دباؤ تھا یا نہیں تھا، عدلیہ آزاد تھی یا نہیں تھی ، مقدمہ عدالت نے سنا اور سزا کا فیصلہ دیا، لہذا ذمے داری کا بوجھ اسی پر آئے گا۔ بھٹو کے مقدمے کا جمہوریت کی بحالی سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی آزادیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مارشل لا میں جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔ سیاسی آزادیاں ختم ہو جاتی ہیں، لیکن انصاف کرنے کا حلف برقرار رہتا ہے۔

بھٹو کو مارشل لا کی ملٹری کورٹ نے سزا نہیں سنائی تھی کہ ہم کہیں کہ مارشل لا ذمے دار تھا۔ بھٹو کو سزا عام عدالت نے سنائی تھی لہذا ذمے دار بھی وہی تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعق ہے کہ جج دباؤ میں تھے، ضیا الحق کا مارشل لا بہت سخت تھا،اس کے باوجود یہ غلط پھانسی دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر جج صاحب دبا میں تھے تو وہ مستعفی ہو سکتے تھے۔

دبا میں غلط پھانسی دینے کو کیسے جائز قرا دیا جا سکتا ہے۔ اگر جج پر دباؤ تھا تو اسے دبا میں بھی غلط فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دبا کی تھیوری یا دلیل مان لی جائے تو دباجمہوری دور میں بھی ہو سکتا ہے۔ دباؤ تو کسی بھی دور میں ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ دباؤ صرف مارشل لا میں ہی ہو سکتا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت اور پراسیکیوشن نے غلط مقدمہ بنایا تو یہ بھی پھانسی کی سزا دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حکومت کا غلط مقدمہ بنانا پھانسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر حکومت کا غلط مقدمہ بنانا وجہ مان لی جائے تو حکومت تو روزانہ غلط مقدمات بناتی ہے۔ حکومت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔ اس لیے اگر مقدمہ غلط بھی تھا تو سزا دینا عدلیہ کا کام ہے۔

آج بھی روزانہ حکومت غلط مقدمات بناتی ہے۔ غلط چالان عدالت میں بھیجے جاتے ہیں۔ غلط تفتیش کی جاتی ہے،لیکن عدالت غلط مقدمات اور غلط تفتیش پر لوگوں کو بری کرتی ہے۔اس لیے حکومت کا بھٹو کے خلاف غلط مقدمہ بنانا پھانسی کی جائز وجہ قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔ پھانسی کی ذمے داری عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو غلط مقدمہ کی بنیاد پر ذمے دار قرار دینے کا کوئی جواز نہیں۔

پاکستان میں غلط مقدمہ بنانے اور غلط تفتیش کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اگر آج مجھ پر کوئی غلط یا جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے۔ پولیس یا حکومت اس میں مجھے غلط طور پر گناہ گار لکھتی ہے اور میں عدالت سے بری ہوجاتا ہوں۔

یہ بھیثابت ہو جاتا ہے کہ مقدمہ غلط تھا ، جھوٹی ایف آئی آر درج ہوئی ہے، غلط تفتیش ہوئی ہے۔ لیکن بری ہونے کے بعد بھی میرے پاس اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کے انصاف کا کوئی راستہ نہیں۔ کہا جائے گا کہ دوبارہ نیا مقدمہ کروں۔ کون کرے گا، آج تک غلط مقدمہ بنانے اور غلط تفتیش پر کسی کو کوئی سزا نہیں ملی ۔ پھر بھٹو پر غلط مقدمہ بنانے والوں کو کیسے ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے۔

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بند مقدمے کو کیسے دوبارہ کھولا جائے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک درست موقف ہے۔ پاکستان کا نظام انصاف یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ اگر آج ایک بند مقدمہ کھولا جائے گا تو پھر کل کئی اور مقدمات بھی دوبارہ کھولنے پڑ سکتے ہیں۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھٹو چونکہ اہم تھے، اس لیے ان کا مقدمہ دوبارہ کھولا گیا ہے۔

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کوئی اہم اور کوئی غیراہم نہیں۔ قانون میں اہم کو غیر اہم پر، مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں عام آدمی اور اہم آدمی کے معاملات کو چلانے کے طریقہ کار میں فرق نظر آتا ہے۔ جو نہیں آنا چاہیے۔

اہم آدمی کو رعایت ملتی ہے جو نہیں ملنی چاہیے۔اہم لوگوں کے لیے رات کو عدالتیں کھلتی ہیں جو نہیں کھلنی چاہیے۔ اہم لوگوں کے مقدمات فوری سماعت کے لیے لگ جاتے ہیں جو نہیں لگنے چاہیے۔ عدلیہ کو تمام مقدمات باری سے لگانے چاہیے۔ میرا مقدمہ کیوں بعد میں لگے اور اہم آدمی کا کیوں فوری لگ جائے۔ ایک ہی دن میں مقدمہ دائر ہوتا ہے اور اسی دن سماعت ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ یہ یکساں نظام انصاف کی نفی ہے۔

لیکن بھٹو کی پھانسی کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے عدلیہ کو صدارتی ریفرنس بھیجا گیا ہے۔عد لیہ صدارتی ریفرنس سننے کی پابند ہے۔ اگر کل کو صدر کسی اور معاملے پر بھی ریفرنس بھیجیں تو عدلیہ اس کو بھی سننے کی پابند ہے۔

عدلیہ صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس کو کیسے سننے سے انکار کر سکتی ہے۔ اگر ہمت ہے تو کہہ دے کہ ریفرنس غلط ہے، یہ انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، ہم بند مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے۔ لیکن لگتا ہے عدلیہ یہ کہنا بھی نہیں چاہتی اور غلطی ماننا بھی نہیں چاہتی۔ لیکن میری رائے میں غلطی ماننے میں کوئی حرج نہیں۔ بھٹو کی پھانسی غلط تھی، سب مانتے ہیں۔ عدلیہ کے ماننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ باقی سب کے سامنے ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس