نہ خان بدلا نہ اُس کا بیانیہ : تحریر انصار عباسی


کچھ عرصہ سے تحریک انصاف کی موجودہ لیڈرشپ اپنی پریس کانفرنسوں ، ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا سے بات چیت کے دوران بار بار یہ بات باور کروانے کی کوشش کرتی رہی کہ تحریک انصاف اور اُس کی اعلیٰ قیادت نہ فوج مخالف ہے اور نہ ہی فوجی قیادت کے خلاف کسی انتقامی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے لیکن عمران خان نے اکانومسٹ میں شائع ہونیوالے آرٹیکل میں پھر وہی باتیں، وہی الزامات دہرا دیے جو وہ اپنی گرفتاری سے پہلے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے متعلق کہتے تھے۔چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر علی خان نے تو اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ تحریک انصاف تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے کیلئے اُن سے ڈائیلاگ کرنا چاہتی ہے۔تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی گرفتاری سے قبل ہی ایک کمیٹی بنا دی تھی جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے ذریعے معاملات کو درست کرنا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو اس معاملے پر پریشان پایا کہ تمام تر کوشش کے باوجود پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کا ماحول ختم نہیں ہو رہا اور نہ ہی موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے پارٹی کا کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ ہو رہا ہے۔ فوج کے ساتھ اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی رہی۔یہ بھی تاثر دیا جاتا رہا کہ عمران خان بھی ،کسی بھی طرح فوج سے نہ لڑائی چاہتے ہیں اور نہ ہی فوجی قیادت کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہی۔تحریک انصاف کے ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ ہر قسم کی گارنٹی بھی دی جا سکتی ہے کہ عمران خان آئندہ اُس بیانیہ کو نہیں دہرائیں گے جو پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بدگمانی کی وجہ بنا اور اگر تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آتی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ والی صورتحال ہر گزپیدا نہیں کرے گی۔ میںنے خود تحریک انصاف کے ایک رہنما سے پوچھا کہ کون عمران خان کی گارنٹی دے گا کہ وہ اپنے ماضی قریب کو نہیں دہرائیں گے اور فوج سے دوبارہ لڑائی نہیں کریں گے اور ماضی کے الزامات نہیں دہرائیں گے؟ اس رہنما نے یقین دلایا کہ بہت کچھ بدل چکا، عمران خان کی بھی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان ماضی قریب کے اپنے متنازع فوج مخالف بیانیہ کو نہیں دہرائیں گے لیکن خان صاحب کے بیرون ملک شائع ہونے والے مضمون نے تو ثابت کر دیا کہ نہ عمران خان بدلے ہیںنہ اُن کے الزمات اور نہ ہی اُن کا بیانیہ۔ اسٹیبلشمنٹ، فوج، سیکورٹی ایجنسیوں اور سول بیوروکریسی کا نام لے کر عمران خان نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کو انتخابات میں لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دے رہے۔ اُنہوں نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کا نام لے اپنی حکومت کے خاتمہ کی امریکی سازش کاذکر کیا بلکہ یہ الزامات بھی دہر دیے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اُنہیں دوبارہ اقتدار میں نہ آنے دینے کا فیصلہ بھی کیا ، اُن پر دو قاتلانہ حملے ہوئے۔9 مئی کے حوالے سے بھی یہ کہا کہ اُس میں تحریک انصاف پر جھوٹا الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔ عمران خان نے لکھا کہ 9 مئی دراصل ایک فالس فلیگ یعنی جعلی آپریشن اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، کئی رہنماوں اور اُن کے خاندانوں پر تشدد کیا گیا، اُن پر دباو ڈالا گیا تاکہ تحریک انصاف کو کمزور کیا جائے۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے بارے میں بھی لکھا کہ عدالتیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔ گویا عمران خان نہ بدلے نہ ہی فوج مخالف بیانیہ سے پیچھے ہٹے۔ اکانومسٹ کے اس مضمون نے تحریک انصاف کے اُن رہنماوں کیلئے مشکلات پیدا کر دیں ہیں جو پارٹی کے فوج مخالف بیانیہ کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے کا راستہ پیدا کرنا چاہ رہے تھے۔ موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر سے جب خان صاحب کے مضمون کے بارے میں سوال کیاگیا تو اُنہوں نے یہ تاثر دیا جیسے یہ مضمون خان صاحب نے لکھا ہی نہیں۔ میں نے گوہر صاحب سے بات کی جس پر اُنہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز اپنی ملاقات میں وہ خان صاحب سے مضمون کے متعلق تو نہیں پوچھ سکے لیکن سوموار کے دن بانی چیئرمین سے پوچھیں گے کہ کیا یہ مضمون اُنہوں نے ہی لکھا؟ تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات نے اگرچہ یہ مانا کہ مضمون عمران خان کا ہی ہے لیکن وہ یہ بات ماننے سے انکاری ہیں کہ اس مضمون میں کچھ بھی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ