7اکتوبر سے خاک و خون میں لتھڑے فلسطینیوں کو دیکھتے اور نوزائیدہ بچوں کو سیدھا کفن میں لپٹے ہوئے خون کے آنسو روتے، اسلام آباد سے سکھر 27اکتوبر کو جانا تھا مگر ایک حادثہ اپنے ساتھ ہزاروں اذیتیں لئے آتا ہے۔ جانے کی تاریخ سے ایک ہفتے پہلے معلوم ہوا کہ پی آئی اے کی وہ جو بچی ہوئی تھوڑی بہت آبرو تھی وہ بھی گئی۔ جہازوں کے لئے تیل نہیں۔ پھر سفر وہ بھی ٹرین سے، ناپختہ ہے۔ وہ کبھی چلتی ہے تو منزل پر مشکل سے پہنچتی ہے۔
ادھر آخر ہم لوگ اسلام آباد سے سکھر کیلئے اور سندھ سے کراچی سارے ادیب ،صحافی اور نوجوان سکھر جانے کو روانہ ۔بات یہ تھی کہ دیوانے احمد شاہ نے ادب فیسٹیول پہلی مرتبہ سکھر میں منعقد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ہم سب یہ جانتے تھے کہ اس شخص احمد شاہ نے اب تک جو کچھ کیا، وہ کرکے، سرخرو ہوا۔ تو ہر حال میں ہم سب آئی ۔ بی ۔ اے یونیورسٹی کے احاطے میں گیارہ گھنٹے تک سفر کرتے ہوئے پہنچ گئے۔ موضوع تھا ادب میں نوجوانوں کی شمولیت اور اظہار رائے ۔یہ یونیورسٹی 40ایکڑ زمین پر سندھ حکومت کے اشتراک سے قائم کی گئی ہے۔ اگلی صبح تازہ ہوا اور چمکتی دھوپ ہر جانب جواں چہرے دیکھ کر ساری تھکن اتر گئی۔ہر چند منتظم تو کراچی آرٹس کونسل تھی مگر ہم سب کے ارد گرد نوجوان لڑکے لڑکیاں کوئی بیگ پکڑنے،کوئی کتابیں سنبھالنے کو ہمارے ساتھ تھے۔مشاعرے میں تولگتا تھا اور تھا بھی روہڑی سے سکھر تک کے سارے نوجوان لڑکے لڑکیاں زمین پہ بیٹھے، ایسے داد دے رہے تھے جیسے ان کی عید اِن چہروں کو دیکھ کر ہوگئی ہے۔کانفرنس کے آغاز سے اختتام تک فلسطینیوں کو یاد کرتے ہوئے کبھی غصے میں آجاتے اور کبھی مغموم ہو جاتے۔ ہم واپس بھی آگئے، مگر صہیونی قوتوں کے زمینی حملے، عام لوگوں کو اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی گزشتہ دو ہفتے سے کوشش میں ناکام تھے کہ عوام اپنا وطن، اپنی سرزمین جو سو سال کی جدوجہد کے بعد حاصل کی تھی اور جسے مسلسل اسرائیلی، کبھی پانی بند کرکے، کبھی بجلی،کبھی گیس اور پھر ہوائی حملوں سے ہسپتالوں کو بھی راکھ کئے جاتے تھے۔ سلامتی کونسل جلسے پہ جلسہ کررہی ہے اور بمباری جاری ہے۔ ادھرپی آئی اے کی 50سے 70پروازیں، روزانہ کی بنیاد پر منسوخ ہوتی گئیں تو پردے اٹھنے لگے کہ اس کے چیئرمین سے لیکر بورڈ اراکین کیسے منتخب کئیجاتے ہیں، کیسے معاوضے اور مراعات، لاکھوں کروڑوں تک پہنچتی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ آج سے 40سال پہلے میں نیویارک میں تھی گھر کسی پی آئی اے کے ملازم کا تھا۔گھر میں اس وقت پی آئی اے میں استعمال ہوتی، کراکری سے ، غذائی لطف کے تمام لوازمات موجود تھے۔پھر یاد آیا کہ جہاز جب دبئی ایئرپورٹ پر وقفہ لیتا تو تمام ایئر ہوسٹس اور دیگر عملہ، زیادہ سے پرفیوم،سگریٹ اور دیگر مہنگی چیزیں خرید کر بیگ بھر کر آدھے گھنٹے میں واپس جہاز میں ڈیوٹی دینے لگتا۔ چونکہ اس زمانے میں اسٹاف کی تلاشی نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے ملک کے ہر گوشے میں میک اپ کا سامان اور پرفیوم دستیاب تھے، پھر تو اسمگلنگ کے بے شمار رستے کھل گئے جو کبھی بند نہیں ہوسکتے۔
اب اس مسلسل بڑھتی، اداروں میں بے رحمی سے خرچ ہوتی رقوم کا سلسلہ دیکھئے۔ اب چونکہ کرکٹ کی ٹیم نے وہ دن دکھا دیئے جو ہم نے قیام پاکستان سے نہیں دیکھے تھے۔ تذلیل کو واضح کرنے کیلئے پول کھلا کہ کیسے بڑی تنخواہوں والے افسروں کو خزانے ادا کرنے کے بعد بے چارے کھلاڑیوں کی باری آتی ہے۔ ان میں بیشتر کھلاڑی غریب خاندانوں کے بچے ہیں ، پرانے کرکٹر توصیف جیسے جو بغیر جوتوں کے گلیوں میں کھیلتے کھیلتے ٹیم میں شامل ہو گئے تھے، ایک دم چند روپوں کی جگہ لاکھوں میں کھیلنے والے ،دوسرے شوق کو بھی آزمانے لگتے ہیں۔ تفصیل کوئی اور مبصر راز کی طرح بتائے گا۔ مختصر بات یہ کہ ہر محکمے ، خاص کر کسٹم،ایکسائز اور کیا بتاؤں کہ ریلوے سے لیکر،اب تو قبرستان تک قبر کی جگہ بھی بلیک ہو رہی ہے، انجام سامنے ہے۔ ہر کھیل اور ہر ادارے میں تذلیل ہمارا مقدر ہے۔
اب دیگر موضوعات کے علاوہ شور مچاہے کہ عمران نے اپنی پبلسٹی کمیٹی کے ذریعے87کروڑ اشتہاروں پر لگا دیئے۔ ویسے میرے خیا ل میں یہ بیکار بات ہے۔ کوئی پوچھے 16ماہ میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات، ان کی حکومت نے کہاں سے فنڈز حاصل کئے۔ اور اب سیاست میں ابھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا نہیں ہمیشہ کی طرح توڑ جوڑ جاری ہے۔بہت سے لوگ افغان مہاجرین کی واپسی کو انسانی بنیادوں پر غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک صورت میں ٹھیک ہے کہ ایک طرف ہم شامی پناہ گزینوں اور افریقی ہجرت زدوں کو ملکوں کے بارڈر پر بے زمین، بھوکے اور بے گھر دیکھ کر یورپی ممالک کو کہتے ہیں۔ ان کو آباد کرو یہ نہیں کہتے کہ جاؤ اپنے ملک واپس جاؤ، ہمارے ملک سے ہزاروں لوگ غیر ممالک میں جارہے ہیں۔ وہ ممالک بھی توپاکستانیوں کو اس طرح واپس بھجوا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہوگا۔ اس وقت بھی انگلینڈ میں بیکار پھرنے والوں میں پاکستانی زیادہ ہیں۔ وہ بھی تو ہیں جو سینکڑوں کیپسول معدے میں رکھ کر منفی محنت کرتے ہیں۔ بہت سے عمرہ کرنے کا کہہ کر کوکین لے جانے کی کوشش کرتے ہیں بقول شاعر
حمیت نام تھا جس کا ، گئی تیمور کے گھر سے
اب آپ بنوں کی طرف چلئے جہاں ایک پروفیسر سے نظریہ انسانی ارتقا کیخلاف لکھوایا گیا ۔ یہ جو کچھ فزکس کی کتابوں میں لکھا ہے وہ سب لغو ہے؟۔ پھر ہم سارے علم اور ساری تحقیق کی نفی کرکے، صرف دوربین سے چاند دیکھنے کو صائب سمجھتے رہیں گے۔ پاکستان جو قائد نے بنایا تھا وہ تو تنگ نظر نہیں تھا اس کی بنائی کابینہ میں ہر مسلک کے زعما شامل تھے۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب ،بہت پڑھے لکھے ہیں۔ ذرا نصابی کمیٹی بنائیں اور دیکھیں کہ نوجوانوں کو دنیا کے بارے میں ہم کیا بتا رہے ہیں ، پہلے ہی سندھ میں اسکول کے بچے کتاب سے نقل کرنا جائز سمجھتے ہیں پھر دوبارہ کہوں گی کمیٹی مت بنایئے۔ ممبران ذمہ لیکر پھر گھر چلے جائیں گے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ چل رہا کہ پورے پنجاب میں اسموگ، اکتوبر ہی سے کیوں پھیل گئی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ