آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو! ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کیلئے
اے دعا! ہاں عرض کر عرش الٰہی تھام کے
اے خدا رُخ پھیر دے اب گردش ایّام کے
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں
آغا حشر کاشمیری کل سے شدت سے یاد آرہے ہیں۔ مجھے بلوچی زبان کے سب سے مقبول شاعر مبارک قاضی کو بھی یاد کرنا تھا جو اچانک تربت میں 67 سال کی عمر میں انتقال کرگئے،بہت بے باک بے خوف انسان۔ لیکن لاہور سے ایک تصویر نے بچوں والے ہر پاکستانی کواندوہ میں ڈبودیا۔
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے
سوشل میڈیا پر اک پھول کے مرجھانے کی تصویر نے واہگہ سے گوادر تک گھروں میں اداسی اتاردی ہے۔ مائیں اپنے جگر گوشوں کو گلے لگارہی ہیں۔ باپ کم سن بیٹوں کے منہ چوم رہے ہیں۔ بہنیں چھوٹے بھائیوں کو گود میں لئے بیٹھی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی، اطلاع کی صدی۔ رابطوں کا عہد اتنا سفاک ہوسکتا ہے کہ کم عمر بیٹوں کو ماں باپ سے جدا کردے۔ محلّے اتنے بے حس ہوسکتے ہیں کہ وہ ہمسایوں کی خیال داری چھوڑ دیں۔ دل ایسے پتھر ہوسکتے ہیں کہ اپنے ہی ایک ہم وطن بیٹے کی آہ و زاری دیکھ کر بھی موم نہ ہوں۔ قانون گھٹنوں میں سر دیے سر بازار رورہا ہے۔ آئین وحشت زدہ ہوکر صحرا میںجانکلاہے۔اطلاع کی تیز رفتاری کے دنوں میں ایک کم سن کی ذہنی کیفیت معاشرے سے کیسے چھپی رہتی ہے۔ صحت علاج معالجے کا معیار بہت بلند ہوگیا ہے۔ کووڈ کی عالمگیر وبا کے بعد تو صحت اب تمام امور پر سبقت حاصل کرچکی ہے۔ ایٹمی توانائی بھی اب علاج معالجے کا حصّہ بن چکی ہے۔ ریڈیالوجی سائبر نائف تک رسائی لے چکی ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنی جگہ، سماجی افراتفری بھی یقیناً اپنے شباب پر ہے۔ ملک وفاداریوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ انسانیت پر قبائلیت، فرقہ، سیاسی وابستگی غالب آچکی ہے۔ ایک ہی شہر ایک ہی محلّے میں رہنے والے ایک دوسرے کا دُکھ نہیں بانٹتے۔ بلکہ سیاسی رابطے کے حوالے سے انسانی تعلقات کو بڑھاتے یا گھٹاتے ہیں۔ بچے بچیاں سانجھے ہوتے ہیں۔ جب زندگی کی بقا درپیش ہوتی تو کوئی یہ نہیں دیکھتا تھا کہ مریض کونسی زبان بولتا ہے۔ کس نسل سے جڑا ہوا ہے۔ کس قبیلے کا چشم و چراغ ہے۔ انسان تو انسان ہے۔ مہذب معاشرے تو اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ Community Feeling ۔ خیال ہم نفساں۔ اجتماعی کرب یہ زندہ متحرک فعال سماجوں کی سب سے نمایاں نشانی ہوتے ہیں۔
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا نے،اسمارٹ فون نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ آدمیت کا خون کردیا ہے۔ تہذیب کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ تمدن کوسمندر میں غرق کردیا ہے۔ لیکن یہ سوشل میڈیا ہی ہے اور اسمارٹ فون کے کیمرے ہی ہیں جو ماؤں کی سسکیاں ہمیں سنارہے ہیں۔ جو بہنوں کے بین ہمارے کانوںمیں ڈالتے ہیں۔ جو ایک کم سن کی وارفتگی، بے قراری، اضطراب دکھا کر ہمیں جھنجھوڑتے رہے۔ لیکن ہم تو تذبذب کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسروں کے بچوں کی کیا فکر کریں گے۔ اپنے بچوں کے ذہنی دباؤ کو جاننے کی کوشش نہیں کررہے۔
میں تو ہر اتوار کو یہ التجا کرتا ہوں کہ دوپہر کاکھانا اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ کھائیں۔ حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال کریں۔ اسکولوں میں یونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ اسکول ٹرانسپورٹ کے بارے میں باتیں کریں۔ اور نماز عصر کے بعد محلّے والوں کے ساتھ بیٹھیں۔ اپنی مسجد کے صحن میں اکٹھے ہوجائیں یا کسی پارک میں جمع ہوجائیں اپنے معاشی حالات پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں، ذہنی دباؤ کا اظہار کریں، آپس میں مکالمے سے بہت سی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں، بہت سی غلط، جھوٹی خبروں کی وضاحت ہوسکتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر روزانہ جو وڈیوز آڈیوز چلائی جاتی ہیں۔ پرانے مناظر نئی سرخیوں کے ساتھ دے کر مشتعل کیا جاتا ہے۔ اس پر کھل کر بات کرنے سے آپ اپنے ہم محلّہ خاندانوں کا اعصابی تناؤ ختم کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری مہذب جمہوری معاشروں میں میڈیا کی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے۔ مگر ان دنوں میڈیا اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ بقا کا راستہ اشتراک میںہوتا ہے۔ عوام سے کٹ کر کسی ادارے،کسی پارٹی کو دوام نصیب نہیں ہوسکتا۔ مگر ہمارا میڈیا ہماری سیاسی جماعتیں، یونیورسٹیاں آج کل یہ تجربہ کررہی ہیں کہ مرکزی دھارے سے کٹ کر کیسے باقی رہا جاسکتا ہے۔ یہ تو تاریخ کے پہئے کو پیچھے دھکیلنے والی کوشش ہوگی۔
بے حس اور پتھر دل معاشروں میں سچائی جاننے اور بتانے کی عادتیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔ حقیقت سے گریز کیا جاتا ہے۔ اسے سماجی استحکام سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی سلامتی حقائق سے چشم پوشی میں تلاش کی جاتی ہے۔ یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ شفا خانے ایک مریض بچے کو اسپتال سے صحت یاب ہوئے بغیر ڈسچارج کرسکتے ہیں۔ پنجاب ایک کھلا میدانی علاقہ ہے وہاں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ سلطان باہوؒ کی ہو سے سرشار پنجاب، داتا گنج بخشؒ کی جلوہ آرائی سے فیضیاب لاہور، بلھے شاہؒ کی حیرت بھری کافیوں سے مسرور پنجاب میں یہ انسان دشمنی کیسے وجود میں آسکتی ہے۔ کیا کسی وارث شاہ کو پھر انسانیت کو متحرک کرنا ہوگا۔لحد میں بھی پھول تھے۔ ایک پھول کو اسی زمین کے سپرد کیا گیا جہاں کلیاں پھوٹتی ہیں۔ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ ایک بچہ نہیں۔ اس ہفتے ہم نے اپنی تہذیب، اقدار، شائستگی پر منوں مٹی ڈالی ہے۔
حق پرستوں کی اگر کی تونے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
بشکریہ روزنامہ جنگ