آجا اے دلربا نازنیں۔ آجا اے دلربا نازنیں
دیکھی ہم نے تیری محفل رنگین۔ لیا تونے بہتوں کا دل چھین
آجا ارے دلربا نازنین، آواز ہے تیری شیریں
اونچی ہے کونجوں کی پرواز، شیریں ہے تیری آواز
اے خدا در پر ہوں تیرے سائل، نہ ہو جدا مجھ سے مہ کامل
صدقے تیرے گشت کا، گل ہے تو بہشت کا
رواں ہے نہروں کا پانی، فطرت کرے تیری نگہبانی
(پرنازنا۔ لوک گیت۔ براہوی زبان و ادب کی مختصر تاریخ۔ ڈاکٹر عبدالرحمن براہوی۔ ناشر۔ براہوی اکیڈمی رجسٹرڈ پاکستان، کوئٹہ)
ڈاکٹر عبدالرحمن براہوی کو سلام عقیدت کہ انہوں نے عظیم اور قدیم زبان براہوی کے شعر و ادب کو ہم اردو پڑھنے والوں کیلئے محفوظ کردیا ہے۔ پاکستانی زبانوں میں کیا پڑھا اور لکھا جارہا ہے کا سلسلہ شروع کرکے میرے تو علم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی زبانوں کے قدیم و جدید سے گزر کر میرے تو پاکستان کے عشق میں شدت آگئی ہے۔پورا پاکستان سندھو دریا کی وادی ہے۔ شیریں تہذیبیں،متنوع تمدن، دریا کنارے ہی پرورش پاتے ہیں۔ ہماری ہر قومی زبان سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو، ہندکو،بلوچی براہوی عوامی دانش سے مالا مال ہے۔ تدبر اور بصیرت کی بلندیوں کا اندازہ آپ کو اس وقت ہوسکتا ہے جب ان کی شاعری، ناول، افسانے، لوک کہانیاں پڑھیں۔ ان کی فکر میں ایک تسلسل ہے۔ کہیں غیر ملکی حملہ آوروں کی مزاحمت ہے۔ کہیں اپنے ہم وطن جارحین سے مقابلہ ہے۔ حملہ کرنے والے چلے جاتے ہیں۔ صدیاں اور گلیاں وہیں رہتی ہیں۔ اس کتاب میں سے کچھ براہوی ضرب الامثال اردو میں ملاحظہ کریں۔ خالی بندوق سے دو آدمی ڈرتے ہیں۔ ایک تو وہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس میں گولی نہیں ہے۔ دوسرا وہ جس پر نشانہ باندھا جائے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس میں گولی ہے۔ اور اب میں مارا گیا۔ ایک اور سنئے۔ مٹی میں کھودیا ہے۔ راکھ میں ڈھونڈ رہے ہو۔ سارے پاکستانی اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایک اور قول فیصل: بھیڑیا اگر بھیڑ کو کھا جائے تو بھی بدنام۔ نہ کھائے تب بھی بدنام۔ ایک تو بہت ہی شیریں ہے۔ اگر سوکن مکھن کی طرح نرم ہو۔ تب بھی گلے میں اٹک جاتی ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے دوسری پاکستانی زبانوں کی طرح ڈائمند جوبلی کے موقع پر براہوی ادب کی تاریخ۔(1947تاحال) بھی شائع کی ہے۔ جس کے مرتب عارف ضیا ہیں۔سابق چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے پاکستان کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں کے ادب پر دستاویزات کا جوسلسلہ شروع کیا وہ قابل قدر ہے۔ مجھے تو ان کتابوں نے پاکستان کی روح سے آشنا کیا ہے۔ حکمراں طبقے ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کیلئے لسانی نسلی تعصبات کو ہوا دیتے ہیں۔ مگر کسی بھی زبان کا ادب انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ عشق،ہجر و وصال،رقیب، حسن، بنیادی حقیقتیں ہیں ۔ بصیرت رکھنے والے سیاسی رہبران حقیقتوں کی قدر کرتے ہیں۔ اگر چہ میں نے اپنی قومی زبانوں کی غزلوں ،نظموں، ناولوں، کہانیوں،افسانوں پر طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ لیکن میرے ذہنی افق پر اتنے چاند۔ ستارے جمع ہوگئے ہیں کہ میرے جملوں میں نئی طاقت آگئی ہے۔ اس سفر نے مجھے ایک ولولہ تازہ دیا ہے۔مجھے متبادل اور مترادف اصطلاحات میسر آئی ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں اور دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے اور حال احوال جاننے کا دن۔ میری گزارش ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد اپنے محلے والوں کے ساتھ نشست رکھیں۔ عالمگیریت سے آپ فائدہ تب ہی اٹھا سکتے ہیں کہ آپ کا عمل مقامی ہو۔ Think Global act local۔ سماجی الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ اقتصادی بد حالی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اپنے خاندان، اپنے محلے، اپنے شہر سے تعلق واسطہ بڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔
یہ تاریخی اور جغرافیائی حقیقت بھی ملاحظہ ہو کہ ہم جب بلوچستان کی دو زبانوں بلوچی اور براہوی کی تخلیقی قوت کا جائزہ لے رہے ہیں اس وقت پاکستان کے تین مرکزی اور وفاقی عہدے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے پاس ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی ہیں۔ ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی ہیں اور نگراں وزیراعظم جناب انوار الحق کاکڑ۔ تاریخ اور منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان دنوں میںبلوچستان کی اور بالخصوص بلوچ نوجوانوں کی محرومیاں دور ہونی چاہئیں۔ یا کم از کم ایسے سسٹم کی بنیاد رکھ دی جائے کہ بلوچستان کے عوام کی 75سالہ شکایتیں کم ہونے کا آغاز ہوجائے۔
براہوی زبان میں خواتین شاعری اور افسانہ نویسی میں آگے آگے ہیں۔ عارف ضیا نے ڈاکٹر عنبرین گل، حمیرا صدف حسنی، جہاں آرا تبسم، نوشین قمبرانی، نیلم مومل، رشیدہ بلوچ، طاہرہ احساس جتک کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔کراچی بھی بلوچی ادب کا ایک اہم مرکز ہے۔ ممتاز مصنف رمضان بلوچ نے اس سلسلے میں رہنمائی کی۔ کراچی سے بلوچی میں جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں غنی پرواز کا ناول۔ ڈاکٹر طارق سخی، ڈاکٹر حنیف شریف، ڈاکٹر ناگمان، منیر مومن، مہر اللہ مہزل، شرف شاد، احمد عمر، کریم رضا، عبدالغنی نقش، فقیر محمد عنبر، اصغر علی آزگ، جمیل مہراب کے افسانوی مجموعی اور شاعری میں عبدالغنی نقش۔ ولی عابد، نذر محمد نذر، جے کے جلالی، نوید موج، نذیر احمد صوفی، عزیز الرحمن عزیز،اخلاق حسین کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے شعری مجموعے کراچی سے شائع ہوئے ہیں۔ خواتین میں زاہدہ رئیس راجی پیش پیش ہیں۔ ان کے ناول بھی چھپ چکے ہیں۔ اور افسانوی مجموعے بھی۔ انیلا بلوچ کی آپ بیتی گنج گوہر بہت پڑھی گئی ہے۔ پرشگتیس آندیک، حانی واحد بلوچ کے قلم سے ایک خاتون کی دردناک سچی کہانی ہے۔ اسی اثنا میں گورنمنٹ گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج کوئٹہ کینٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ناہید خان کی ایک اہم تازہ تصنیف بھی ہم تک پہنچی۔ بلوچستان میں اردو ناول، تحقیق ، تاریخ و پس منظر۔ اس پر بھی بات ہوگی۔
ہمیں یہ فخر ہونا چاہئے کہ نہ صرف ہماری مرکزی، وفاقی زبان اردو میں اعلی ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ہمارے خطے کی صدیوں قدیم زبانوں میں بھی فکری ارتقا اورتمدنی تسلسل جاری ہے۔ سوچ آگے بڑھ رہی ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے سیاسی اور فوجی حکمراں۔ ہماری اجتماعی بصیرت۔ قومی صلاحیتوں کے استعمال میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہم ان دنوں جھاڑ جھنکاڑ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ورنہ تخیل کی ایسی بلند پروازیں، استعاروں اور تشبیہوں کے خالق قلمکاروں کی دانش واہگہ سے گوادر تک کی بستیوں کو یورپ اور کینیڈا کے برابر لے جاسکتی ہے۔ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ کسی لغزش کی گنجائش نہیں ہے۔ریاست کو چاہئے کہ اجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا سسٹم تشکیل دے۔ کروڑوں دماغ اپنے وطن کیلئے سوچتے ہیں مگر ان کی فکر سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ