علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میری رائے میں ہندوستان اور ایشیا کی قسمت صرف اِس بات پر منحصر ہے کہ ہم قومیتِ ہند کا اتحاد کسی اصول پر قائم کریں۔ اگر ہم ہندوستان کو چھوٹا ایشیا قرار دیں،تو یہ کسی طور غیرمناسب نہیں ہو گا۔ اہلِ ہند کا ایک حصہ اپنی تہذیب و تمدن میں مشرقی اقوام سے متشابہ ہے لیکن اِس کا دوسرا حصہ ان قوموں سے ملتا جلتا ہے جو مغربی اور وسطی ایشیا میں آباد ہیں۔ اگر ہندوستان کے اندر اِشتراکِ تعاون کی کوئی آزاد شکل نکل آئی، تو اِس سے صلح و آتشی کی راہ نکل آئے گی اور اِس کے ساتھ ہی پورے ایشیا کا عقدہ بھی حل ہو جائے گا۔
علامہ اقبال کے خطبے کا تیرھواں غور طلب پہلو یہ تھا کہ ہماری طرف سے پے در پے کوششوں کے باوجود اِتحاد پیدا کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اِس کی نمایاں وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ظاہری طور پر اگرچہ ہمیں رواداری اور حب الوطنی کا دعوی ہے لیکن دلوں میں ذات پات کی تنگی اور فرقہ واریت کی نفرت بدستور کام کر رہی ہے۔ ہم یہ اصول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کی نشوونما میں آزادی سے قدم آگے بڑھا سکے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیے کے لئے اگر یہ بنیادی اصول تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانانِ ہند کو اپنی روایات اور تمدن کے تحت اس ملک میں آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہو گا، تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
خطبہ الہ آباد میں اِس اہم نکتے کی وضاحت کی گئی کہ یہ اصول کہ ہر جماعت اِس امر کی مجاز ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ ترقی کرے، کسی تنگ نظری یا فرقہ واریت پر ہرگز مبنی نہیں۔ فرقہ واریت کی بھی بہت ساری صورتیں ہیں۔ وہ فرقہ واریت جو دوسری قوموں سے نفرت اور بدخواہی کی تعلیم دے، اس کے ذلیل اور گھٹیا ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے مذہبی اور معاشرتی اداروں کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ بحیثیت مسلمان میرا یہ فرض ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ اِس کے ساتھ اس جماعت سے مجھے دلی محبت ہے جو میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے زندہ ہو کر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ آج بھی میری ذات میں سرگرم ہے۔
خطبہ الہ آباد کے پندرھویں نکتے کا تعلق جداگانہ طریقِ انتخابات سے تھا جس کا سب سے پہلے سرسید احمد خاں نے انیسویں صدی کے اواخر میں مطالبہ کیا تھا۔ اِس مسئلے نے ہندوستان کی سیاست میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ نہرو رپورٹ میں جداگانہ طریقِ انتخاب مسترد کر دیا گیا ہے جس کے خلاف مسلمانوں کے اندر شدید ردِعمل پایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں نہایت دانش مندانہ انداز میں اِس کی افادیت واضح کی اور ہندووں کے اِس خیال کو غلط قرار دِیا کہ جداگانہ انتخاب کا اصول قومیت کے منافی ہے۔ ان کے نزدیک قومیت کا مفہوم صرف اِس قدر ہے کہ ہندوستان کے تمام باشندے اِس طرح خلط ملط ہو جائیں کہ ان کے اندر مخصوص ملت کا انفرادی وجود باقی نہ رہے۔ ہم کسی طور اِس اتحاد کے آرزومند نہیں۔ ہندوستان میں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب آباد ہیں۔ اگر مسلمانوں کی سیاسی پستی اور ان کی معاشی بدحالی کا خیال کر لیا جائے، تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ وہ جداگانہ انتخابات کے لئے کیوں مضطرب ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں اور خاص طور پر اِن حالات میں جو اِس وقت موجود ہیں، اِس امر کی توقع رکھنا کہ ہر ملت کے مفاد کی پوری پوری نمائندگی ہو سکے گی، ناممکن ہے، کیونکہ مخلوط انتخابات سے تمام اقلیتوں پر ہندووں کا غلبہ ہو جائے گا۔ اگر صوبوں کی تقسیم ایک ایسے اصول کے تحت عمل میں آ جائے کہ ہر صوبے کے اندر تقریبا ایک ہی طرح کے باشندے ہوں اور ان کی نسل، ان کا مذہب اور ان کی تہذیب و تمدن ایک جیسا ہو، تو مسلمانوں کو مخلوط انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔حکیم الامت کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے خطبے میں ہندوستانی مسلمانوں میں پائے جانے والے بڑے عوارض کی نشان دہی بھی کی۔ ایک یہ کہ ہمارے اندر اہم شخصیتوں کا بڑا فقدان ہے۔ سر میلکم ہیلی اور لارڈ ارون کی بات بالکل صحیح تھی جب انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں برملا کہا تھا کہ ملتِ اسلامیہ نے کوئی رہنما پیدا نہیں کیا۔ رہنما سے مراد وہ افراد ہیں جنہیں عنایت ایزدی یا اپنے وسیع تجربات کی بدولت ایک طرف یہ کامل ادراک ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روح اور اس کی تقدیر کیا ہے۔ دوسری طرف ان میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جدید حوادث کی رفتار کا اندازہ صحیح لگا سکیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر کسی قوم کی قوتِ عمل کا انحصار ہوتا ہے۔
دوسرا مرض جو مسلمانوں کے اندر گھر کر چکا ہے، وہ یہ ہے کہ ان میں اطاعت کا مادہ باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج متعدد افراد اور متعدد جماعتیں الگ الگ راہوں پر گامزن ہیں۔ جو طرزِعمل ہم نے مذہب کے ساتھ اِختیار کر رکھا ہے، وہی سیاست میں بھی آ گیا ہے، تاہم دوسری صحت مند سرگرمیوں سے کم از کم اتنا تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اِس اصول سے دلچسپی ہے جس پر ہمارے وجود کا اِنحصار ہے۔
بیماری کی تشخیص کے ساتھ ہی دانائی راز ڈاکٹر محمد اقبال نے اِس اہم ترین تاریخی حقیقت کا انکشاف کیا کہ ہر بحران میں اسلام ہی نے مسلمانوں کو راہِ نجات دکھائی ہے۔ اِس بنیاد پر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ برِصغیر کے مسلمانوں کا سنگین ترین مسئلہ بھی اسلام کے ساتھ گہری وابستگی ہی سے طے ہو گا اور اِسی کے ذریعے وہ غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی نعمت سے یقینی طور پر سرفراز ہوں گے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ