آئیے آج سسٹم پر بات کرتے ہیں۔
سارے مسائل کی ماں کسی سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ بعض سنجیدہ افراد اور پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستان میں عدم سسٹم ہی ایک سسٹم ہے۔بھارت کو پاکستان پر یہ فوقیت رہی ہے کہ اسے سارے بنے بنائے سسٹم۔ قائم شدہ سیکرٹریٹ۔ شہری بلدیاتی دفاتر۔ ٹیکس مراکز۔ اور بہت کچھ پہلے سے رواں مل گیا۔ کچھ مقامات مغلیہ بادشاہوں کے تعمیر کردہ تھے۔ کچھ 1857کے بعد انگریز نے بتدریج تحصیل۔ ضلع۔ صوبہ۔ ریاست۔ مرکز کی سطح پر بنائے۔ اسے اپنے وطن انگلستان کا تجربہ تھا۔ اس سسٹم کو یہاں مروج کیا گیا۔ کچھ میں انگریز نے مغلوں کی پیروی کی۔ رجواڑے۔ ریاستیں۔ جاگیریں۔ ہزاریے۔ تمنداری۔ سرداری اسی طرح رکھی ۔غلام انتظامیہ کے لئے یہی سازگار تھا۔ کچھ شاہی غلام۔ کچھ سرداری غلام۔
پاکستان کو 1947کے بعد زیادہ تر سسٹم خود بنانا تھا۔ چھوٹے پیمانے پر تو انگریز کا سسٹم بڑے شہروں میں موجود تھا۔ اس میں روزمرہ کے شہری امور چلانے میں سب سے زیادہ موثر عہدہ انسپکٹر کا تھا۔ شاپ انسپکٹر۔ وزن انسپکٹر۔ گوشت انسپکٹر۔ میرا خیال ہے کہ بادشاہوں کے زمانے میں بھی انسپکٹری ہوتی تھی اور یہ عہدیدار فرض شناس ہوتے تھے کہ وہ انسانی زندگی کے تحفظ کے ذمہ دار تھے۔ جن فرائض کی انجام دہی کے لئے وہ مامور کئے جاتے تھے۔ ان کا تعلق ان کے اپنے خاندان سے اپنے رشتے داروں سے بھی ہوتا تھا۔ اس لئے ناپ تول کا۔ عمدگی کا خیال رکھا جاتا تھا۔پاکستان میں پہلے تین چار سال یہ سیکرٹریٹ قائم کرنے۔ ایک سسٹم کو اپنانے میں ضرور صرف ہوئے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مسلم لیگی حکمرانوں میں زیادہ تر بڑے جاگیردار۔ قبائلی سردار۔ تمندار۔خان بہادر تھے۔ وہ اپنے موروثی نوابی خاندانی قبائلی سسٹم کو سرکاری سسٹم پر فوقیت دیتے تھے۔ اس لئے ہمارے ہاں رجواڑے۔ ریاستیں۔ نوابیاں 1970میںجاکر ختم ہوئیں۔ جبکہ انڈیا میں پہلے دو تین سال میں یہ امتیاز ختم کردیا گیا تھا۔ انڈیا میں پہلے سے قائم سسٹم میں مزید بہتری کے لئے کمیشن بنائے جاتے رہے۔ اقلیتوں اور چھوٹی ذات کے لوگوں کی بہتر زندگی کے لئے اگر چہ یہ سسٹم پورے انڈیا میںبھرپور انداز میں لاگو نہ ہوسکا۔ مگر پھر بھی کافی بڑا علاقہ مستفید ہوگیا۔ پھر وہاں حکومتیں باقاعدہ انتخابی نظام کے تحت تبدیل ہوئیں۔ اقتدار کی منتقلی عوام کے مینڈیٹ سے ہوئی۔ کبھی فوج کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اقتدار پر قابض ہو۔ البتہ جمہوریت کشمیر کے مسلمانوں کو نصیب نہ ہوسکی۔ انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق رائے دہی نہیں مل سکا۔ لیکن عوام کی داد رسی اور مسائل کے از خود حل ہونے کا سسٹم وہاں بھی موجود ہے۔ یورپ کے ممالک میںتحقیقی ادارے امریکہ میں تھنک ٹینک مسلسل تحقیق کرتے رہتے ہیں کہ سسٹم کیسے بہتر ہوسکتا ہے۔ میڈیا بھی اس کے لئے کوشاں ہے۔پاکستان میں پہلے جاگیردار سردار اور نواب خود کار سسٹم کے قیام میں حائل رہے۔ پھر 1999-1977-1969-1958 کی فوجی مداخلتوں نے بھی بتدریج جمہوری۔ عوامی سسٹم کے قیام اور دوام میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ پہلے حکمران جماعت کے سربراہوں سے لے کر اس کے تمام ضلعی عہدیدار سسٹم کو چلنے نہیںدیتے تھے۔ متعلقہ سرکاری افسروں کے دفتروں میں جاکر ہلہ بولنا۔ توڑ پھوڑ کرنا اور اپنی بات منوانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ فوجی حکومتوں کے دور میں سسٹم کی برقراری میں وردی حائل ہوجاتی ہے۔ 1971تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا اکثریت میں تھا۔ وہاں بڑی زمینداریاں نہیں تھیں۔ سردار۔ تمندار بھی بہت کم تھے۔ اس لئے وہاں کچھ سسٹم کی بات ہوتی تھی۔ قومی اسمبلی میں مولوی فرید احمد کی تقریریں سسٹم کی عدم موجودگی سے ہونے والے نقصانات پر ہوتی تھیں۔ سسٹم کے نہ ہونے سے میرٹ کا قتل ہوا۔ امتحانات میں نقل کی راہ ہموار ہوئی اور تان اس پر ٹوٹی کہ حکمراں پارٹیوں کے نوجوانوں کو امتحان دیے بغیر ڈگریاں ملتی رہیں۔ سسٹم کے نہ ہونے سے بازار سے برکتیں اٹھ گئیں۔ مسلمان دکاندار اپنیدینی فرائض بھول گئے۔کم ماپنے۔ کم تولنے لگے۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کے تجربے بھی کلمہ پڑھنے والوں نے کیے۔ ذخیرہ اندوزی بھی ہوئی۔ ان سماجی بیماریوں کو روکنے میں سب سے موثر کردار انسپکٹروں کا اور آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا تھا۔ پہلے حکمران سیاسی جماعتوں۔ پھر فوجی حکومتوں کے با اثر افراد نے انسپکٹروں کو بے اثر کردیا۔ وہ گھر بیٹھے سب اچھا ہے کی رپورٹیں دینے لگے۔ انسپکٹروں کو گھر بیٹھے نذرانہ مل جاتا ہے۔ ہم جیسے پاکستان کے ہم عمروں نے دیکھا تھا کہ ایک اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے آنے پر اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ کیسے گھبراتے تھے۔ طالب علموں کو تیاریاں کرواتے تھے۔ ان کا دبدبہ اور احترام سب جاتا رہا۔ سسٹم کو اس طرح کمزور کیا گیا اور نتیجہ یہ ہے کہ ریاست پاکستان کمزور ہوتی گئی۔ چند خاندان امیر ہوتے گئے۔آج 2023میں پاکستان بنتا دیکھنے والی نسل۔ پھر ٹوٹتا دیکھنے والی نسل۔ پاکستان کو جرمنی جاپان کو قرضہ دیتے دیکھنے والی نسل۔ اب ایک ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لئے جس طرح ریاستی حکمرانوں کو ہاتھ جوڑتے دیکھتی ہے۔ تو کتنا دکھ ہوتا ہے۔
پاکستان کی اکثریت کی بد حالی۔ اپنے معمول کے کام نہ ہونے کی پریشانی۔ کئی سطح پر سسٹم نہ ہونے کے باعث ہے۔ قواعد و ضوابط ہیں۔ مگر ان پر عملدرآمد کی بجائے اعلی افسر کے فرمان پر یا رشوت پر عمل ہوتا ہے۔ چند منٹ میں از خود ہونے والے کام پر کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اب تو جدید ترین ٹیکنالوجی آگئی ہے۔ بیشتر ملکوں میں گھر بیٹھے سب کام ہونے لگ گئے ہیں۔ پاکستان میں آپ وفاقی دارالحکومت میں چلے جائیں۔ لاہور۔ کراچی۔ پشاور۔ کوئٹہ۔ مظفر آباد۔ گلگت کسی سیکرٹریٹ کا چکر لگالیں۔ بہت خوش نصیب ہوں گے اگر آپ کا کام از خود ہوجائے۔ہمارے ہاں مہذب جمہوری ملکوں کی طرح بڑے نظریاتی مباحث ہوتے ہیں۔ اقتصادی نظاموں پر ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ ٹاک شوز میں سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار اپنیپارٹی سربراہ کو دنیا کا سب سے بڑا مفکر ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ آخری امید اداروں کو بتایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں سردار۔ جاگیردار۔ سیاسی اور فوجی حکومتوں دونوں میں بڑے عہدوں پر رہے ہیں۔ اگر ملک میں از خود مسائل حل ہونے کا سسٹم بتدریج ختم کیا گیا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔؟
اب ملکی تاریخ کے سب سے نازک اور فیصلہ کن موڑ کا تقاضا ہے ایک سسٹم کا قیام۔ یہ سب کے حق میں ہے۔ اگر اب بھی دیر کی گئی تو انارکی میں شدت آسکتی ہے۔ میڈیا۔ تحقیقی اداروں کو سیاسی جماعتوں کو سب کو سسٹم کی بحالی کے لئے ہر لمحے متحرک ہونا چاہئے۔ سسٹم آپ کو آئین دیتا ہے۔ قواعد و ضوابط دیتا ہے۔ جو خوشحالی ہم لوگوں کا حق مار کر اپنے خاندانوں کے لئے حاصل کرتے ہیں ۔22کروڑ کو جیتے جی مارتے ہیں۔ اس سے زیادہ خوشحالی سسٹم کے قیام لئیسے مل سکتی ہے۔ سب کو ان کا حق بھی ملے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ