چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023 کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007 میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلی عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہوگا۔
جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلی عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلی عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971 دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کردی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔
اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958 سے 1999کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلی عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16 اکتوبر 1999کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کرکے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔
جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دباؤ میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جونئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلی عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکراؤ پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلی روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلی عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلی بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ