کیا کالم لکھنا توسن خیال کی آوارہ خرامی ہے؟ اس کیلئے تو مگر شعر کی بے کنار کائنات موجود ہے۔ غالب تو ماورائے عدم کی نامعلوم وسعتوں سے یہ کہتے ہوئے نگہ بے نیازی سے آگے بڑھ گئے سیر کے واسطے تھوڑی سی زمیں اور سہی۔ فراق فرماتے تھے، ارے صاحب، بات کیا کرنا ہے، بس دماغ سانس لیتا ہے۔ اخباری کالم نگار کو لیکن اہل زمین کے معاملات سے مفر نہیں کہ اس نے تاریخ کے عذاب دستاویز کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ سیاست قوم کے خد و خال کی باریک نقش کاری ہے۔ سیاسی عمل میں معیشت، شناخت اور کاروبار مملکت کے ان گنت مفادات کا تصادم کار فرما ہے، لیکن اس تصادم کو شہری مساوات، عوام کی حتمی حاکمیت اور پرامن مکالمے کے متعین ضابطوں میں رہتے ہوئے یوں نبھانا ہوتا ہے کہ اختلاف رائے میں تشدد کی بدنمائی تو ایک طرف، ذاتی عناد کی تلخی تک راہ نہ پا سکے۔ سیاسی عمل کی یہی تہذیب ایسے تمدن کی طرف لے جاتی ہے جہاں بظاہر قطبی زاویے مل کر اجتماعی ترقی کا دھارا مرتب کرتے ہیں۔ گزشتہ اظہاریے میں محترم حبیب اکرم سے اختلاف کی جسارت کی تھی۔ حبیب اکرم سے تعلق خاطر ایسا استوار اور ہموار ہے کہ درویش کبھی انہیں محب مکرم کہہ کر مخاطب ہوتا ہے تو کبھی حبیب لبیب۔ رائے کا اختلاف دوستی میں حائل نہیں ہوتا اور ذاتی تعلق اختلاف رائے کے آڑے نہیں آتا۔ یار عزیز نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے نیاز مند سے اختلاف کا تحریری پیغام ارزاں کیا ہے۔ حبیب اکرم صاحب کا نقطہ نظر من و عن پڑھنے والوں تک پہنچانا محض ذمہ داری نہیں، ایک اعزاز ہے۔ لکھتے ہیں۔
مکرمی وجاہت مسعود صاحب، آپ سے نیاز مندی میرے لئے ہمیشہ وجہ افتخار رہی ہے اور آپ کے کالم، آپ سے بعض فکری اختلافات کے باوجود میری پسندیدگی کی فہرست میں سب سے اوپر ہی آتے ہیں۔ آج آپ سے اس برقی پیغام کے ذریعے مخاطب ہونے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ گزشتہ کالم میں آپ نے اس خاکسار کی تحریر سے ایک نتیجہ اخذ کر کے فیصلہ سنا دیا، جس کے خلاف اپیل آپ ہی کی عدالت میں دائر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جناب عالی، میں نے عرض کیا تھا کہ عمران خان 2018 میں عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اب بھی الیکشن کے طلبگار ہیں۔ آپ نے ان دو نکات پر جو تبصرہ فرمایا اس کے مطابق 2018 کا الیکشن جعلی تھا اور اب بھی عمران خان بگولوں کے تعاقب میں ہیں۔ مجھے عمران خان کا دفاع مطلوب نہیں مگر اپنی صفائی پیش کرنا ضرور مقصود ہے۔
محترمی۔ پاکستان کا دستور الیکشن کے حوالے سیواضح ہے کہ آرٹیکل 225 کے مطابق اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو وہ الیکشن ٹریبونل میں جائے۔ اگر یہ الیکشن آپ کے تاثر کے مطابق درست نہیں تھا تو پھر یہ بتانا بھی واجب ہے کہ اس آئینی راستے کو کتنے لوگوں نے آزمایا۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن مانگنا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک میں کوئی براہ راست منتخب ادارہ موجود نہیں، بگولوں کا تعاقب کیسے قرار پایا؟ آپ کی رائے سر آنکھوں پر لیکن الیکشن کا غیرمنصفانہ ہونا یا نئے الیکشن کا مطالبہ دونوں ہی آئینی حقیقتیں ہیں جو اس دائرے میں طے شدہ ہیں۔ اگر یہ دونوں دستوری حقائق نہیں تو میرا استدلال غلط اور قابل طعن ہو سکتا ہے، اگر یہ دونوں صرف میری رائے کے تابع ہوں تو میں لائق ملامت ہوں۔ مجھے آپ کے قلم کی کاٹ کا خوب اندازہ ہے۔ پھر بھی یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ حقائق کی گردنوں کو اپنے قلم کی کاٹ سے محفوظ ہی رکھے۔ والسلام، آپ کا حبیب
یہ تو رہا بھائی حبیب اکرم کا پیغام۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نکتے کی نشان دہی سے ابتدا کی جائے جہاں سرے سے کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اب قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی میعاد مکمل کر کے تحلیل ہو چکی ہیں لہذا مجھ سمیت ملک کا ہر جمہوریت پسند شہری آئینی مدت کے مطابق انتخابات کے بلاتاخیر انعقاد کا طالب ہے۔ کسی خود ساختہ جواز کی آڑ میں انتخابات کا التوا ملکی تاریخ میں ایک اور سیاہ روایت کی بنیاد رکھے گا۔ تاہم خیال رہے کہ عمران خان نے نئے انتخابات کا مطالبہ اگست 2023 میں پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد نہیں کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے مارچ 2022 میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے گریز کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک غیرملکی سازش دریافت کی جس سے بعد ازاں دست بردار ہو گئے۔ جنرل قمر باجوہ کے سبک دوش ہونے کے بعد انہیں اپنے خلاف سازش کا محرک قرار دیا۔ اس سے پہلے رات کی تاریکی میں جنرل قمر باجوہ سے ملاقاتوں کے دوران غالبا وہ اپنے خلاف سازش میں جنرل قمر باجوہ کے کردار سے بے خبر تھے۔ پارلیمانی نظام میں حزب اختلاف کا وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا غیرمشروط حق دستور کی شق 95میں صراحت سے موجود ہے۔ عمران خان اپنی مفروضہ غیرملکی سازش کے بیانیے کو پارلیمنٹ میں لے گئے اور ایوان سے استصواب کئے بغیر ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے تحریک عدم اعتماد مسترد کروا کے قومی اسمبلی تک تحلیل کر دی۔ عدالت عظمی نے اس عمل کو غیرآئینی قرار دیا تو عمران خان اپنے رفقا سمیت اسمبلی سے رخصت ہو گئے اور نئے انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ مطالبہ محل نظر تھا کہ اسمبلی کی میعاد مکمل نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان کے حامیوں نے 28 فروری 2022 کو جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پر ہلا بولا، 25 مئی کو اسلام آباد پر چڑھائی کی۔ 26 نومبر 2022 کو اسلام آباد کی طرف مارچ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے نظر نہ آئے تو دو صوبائی اسمبلیاں منہدم کر دیں۔ صوبائی اسمبلیاں توڑنے پر پرویز الہی کا بیان تاریخ کا حصہ ہے۔ دستور میں نگران حکومتوں کا عجیب الخلقت پیوند ہوتے ہوئے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے علیحدہ علیحدہ انتخابات کا امکان ختم ہو چکا ہے۔ گزشتہ 17 ماہ میں عمران خان نے جمہوری سیاست کی بجائے راولپنڈی کی ایک عمارت پر شست باندھ رکھی ہے۔ سخن شناس نہ ای دلبرا خطا اینجا است (جاری ہے )
بشکریہ روزنامہ جنگ