مولانا فضل الرحمن سے ملاقات : تحریر مزمل سہروردی


پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی لاہور میں ممتاز شاعر ممتاز گیلانی کے گھر اینکرز اور کالم نویسوں سے ایک ملاقات ہوئی۔

جے یو آئی کی مقامی قیادت بلال میر غضنفر عزیز اور زین العابدین بھی موجود تھے۔ ملاقات میں پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامہ پر تفصیل سے بات ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے ہر سوال کا جواب بھی دیا اور بہت سے سوالات ہمارے لیے بھی چھوڑ دیے۔

مولانا فضل الرحمن کی گفتگو کا آغاز ہی اس بات سے تھا کہ پنجاب میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہاں اس وقت کیا صورتحال ہے اور اس کا نیشنل میڈیا میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
ان کے مطابق کے پی کے اور بلوچستان میں حالات بہت خراب ہیں۔ بات صرف پاک فوج اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان لڑائی کی نہیں ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں ایک دوسرے کو چن چن کو مارا جا رہا ہے۔

آپ تک صرف چند ایک واقعہ کی خبر پہنچتی ہے۔ عام واقعات کی خبر آپ تک پہنچتی ہی نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے روزانہ درجنوں واقعات ہو رہے ہیں جن کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا اس وقت عملی صورتحال ایسی ہے کہ خیبرپختونخوا میں کوئی بھی امیدوار اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ ٹی ٹی پی نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے وہ ہر انتخابی سرگرمی کو نشانہ بنائیں گے۔

ایسے میں نہ تو کوئی ووٹ مانگنے کے لیے باہر نکل سکتا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ کوئی ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکل سکے گا۔ اگر سچ جانیں تو میں بھی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ میرے لیے بھی اپنے حلقہ انتخاب میں کسی بھی قسم کی کوئی انتخابی سرگرمی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ایسے ماحول میں جب کوئی انتخابی مہم ہی ممکن نہیں تو شفاف انتخابات کیسے ممکن ہیں۔

مختلف سوالات کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مسئلہ یہی ہے کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی میں بیٹھے لوگوں کو صورتحال کا اندازہ ہی نہیں ہے۔وہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جب حکومت ترقیاتی کام کے لیے کوئی ٹینڈر کرتی ہے تو جب تک ٹھیکیدار دس فیصد ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈر کو نہیں دیتا وہ وہاں کام نہیں کر سکتا۔

حکومت ٹینڈر دیتی ہے پیسے دیتی ہے لیکن کام ان کی مرضی اور اجازت سے مشروط ہے۔ اسی لیے اب ہر ٹینڈر میں ٹھیکیدار ان کا دس فیصد رکھتا ہے۔ اس کا سب کو پتہ ہے۔ کھلے عام دیا جاتا ہے۔ جو نہیں دیتا وہ کام نہیں کر سکتا۔ہم مانتے نہیں ہیں لیکن ان کا کنٹرول موجود ہے۔

انھوں نے کہا میری پہلی دن سے رائے تھی کہ فاٹا کا انضمام غلط فیصلہ ہے۔ پہلے وہاں ترقیاتی کام کرنے چاہیے تھے۔ فاٹا کو باقی علاقوں کے برابر لانا چاہیے تھے پھر اس کا انضمام ہونا چاہیے تھا۔ آپ دیکھ لیں اس کے بعد بھارت نے کشمیر میں ایسے ہی کیا۔ آپ مقامی لوگوں کی رائے لے لیں لوگ اس انضمام کے حق میں نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے 2018 کے انتخابات کے نتائج ماننے کے خلاف تھے۔ مجھے چیئرمین سینیٹ کا لالچ بھی دیاگیا لیکن میں نے دھاندلی کے نتائج ماننے سے انکار کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا میں چیئرمین تحریک انصاف کو سیاستدان نہیں مانتا۔ وہ بیرونی ایجنٹ تھے۔

ان کے دور میں بیرونی ایجنڈے کی سب سے زیادہ تکمیل ہوئی۔ یہی پاکستان کی تباہی کا باعث بن گیا۔ وہ ہر وقت امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مفاد اہم نہیں تھا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات پاکستان کی زندگی ہیں۔ ہم انتخابات کے خلاف نہیں ہیں۔ انتخابات سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن انتخابات کے لیے ایک ماحول بھی ضروری ہے۔ ہمیں ووٹ مانگنے کا موقع ملنا چاہیے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملنا چاہیے۔

انتخابات کب ہونگے کے جواب میں انھوں نے کہا حلقہ بندیوں کی آئینی ضرورت پورے ہونے کے بعد انھیں امید ہے کہ فروری میں انتخابات ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم کا استعفوں کا فیصلہ عدم اعتماد سے بہتر تھا۔ اگر ہم سب مستعفی ہو جاتے تو عمران خان کی حکومت خود بخود گر جاتی۔ سندھ اسمبلی ٹوٹ جاتی۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی بڑی اکثریت مستعفی ہو جاتی تو نہ صرف عمران خان گر جاتے بلکہ انتخابات بھی ہو جاتے۔

تاہم پیپلزپارٹی عدم اعتماد کے حق میں تھی مجبورا ہمیں ماننا پڑا۔ عدم اعتماد میں جب ایم کیو ایم اور باپ پارٹی آگئی تو وہ کوئی فوری انتخابات کے لیے نہیں آئے تھے۔ وہ آئے تو مدت تو پوری ہونی تھی۔ انھوں نے ہمیں قومی اسمبلی توڑنے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔

مولانا کے پی اور بلوچستان میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر بہت پریشان ہیں۔ وہ افغانستان کے ساتھ بگڑتے تعلقات سے بھی خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا افغانستان کی عبوری حکومت سے اچھے تعلقات ناگزیر ہیں۔ محاذ آرائی ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔

مسائل کا حل بات چیت سے نکالنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن وہاں سے جنگجو گروپ ختم نہیں ہوئے۔ ہمیں ان جنگجووں کو دوبارہ جنگ کا میدان نہیں دینا ہے۔ کیونکہ ان جنگجوؤں کو جنگ کے سوا کچھ نہیں آتا۔ وہ جنگ کی تلاش میں ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس