پاکستان کے حالات دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔جس طرف دیکھیں بدانتظامی ہی نظر آئے گی۔ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں۔ خرابیاں اتنی ہیں کہ گننا مشکل ہے اور اگر آپ گننے بیٹھیں گے تو یہ اس لئے بھی ممکن نہیں ہو گاکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اگر آپ ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا سوچیں تو سمجھ نہیں آتا بندہ شروع کہاں سے کرے۔ انتظامی حالات دیکھیں تو ملک گورننس کے قابل نہیں چھوڑا، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں پر نظر دوڑائیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان قرضوں کے ایسے بوجھ تلے دب چکا ہے کہ قریباً ہماری ساری آمدنی اب صرف سود کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔ بجلی انتہائی مہنگی لیکن پھر بھی گردشی قرضہ 23 سو ارب روپے سے زیادہ، اب تو گیس کا گردشی قرضہ بھی 27 سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جسے قابو کرنے کے لئے گیس پچاس فیصد مہنگی کرنے کا فیصلہ متوقع ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، پاکستان سٹیل ملز وغیرہ جیسے ادارے بھی سالانہ قوم کا کھربوں روپیہ کھا جاتے ہیں۔ ٹیکس کا نظام ناقص ہے جس کی وجہ سے پاکستان اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں لوگوں کی کم ترین شرح، ٹیکس دیتی ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کی جاتی ہے لیکن عملاً سارا زورIndirect ٹیکسوں پر ہوتا ہے جس کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقہ پر پڑتا ہے جس کے لئے جینا ویسے ہی مشکل ہوچکا ہے۔ پاکستان کی ریاست اور عوام دونوں کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمارا کل خطرہ میں ہے۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لئے بہت بڑے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، جس کے لئے ہمارے سیاست دانوں کو توقع ہے کہ مشکل فیصلے نگراں حکومت کرے تا کہ جب الیکشن کے بعد اُنہیں حکومت ملے تو وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جس سے اُن کے ووٹرز ،سپورٹرز اور عوام ناراض ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت حکومتیں تو منتخب نمائندوں کو ہی کرنی ہیں لیکن جب اُن کی حکومت آتی ہے تو وہ مشکل فیصلے اس لئے نہیں کرتے کہ کہیں ووٹر ناراض نہ ہو جائے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی پالیسی کا اعلان کیا جائے اور تاجر برادری کو ٹیکس دینے کا کہا جائے تو سیاسی قیادت کی طرف سے حکم آ جاتا ہے کہ تاجروں کو مت چھیڑو۔ انتظامی طور پر عوام کا سالانہ کھربوں روپیہ کھانے والے اداروں کو بند کرنے کی بات کی جائے تو پھر یہی سیاسی قیادت حکومت کے آگے رکاوٹ بن جاتی ہے کہ ایسے اداروں میں کام کرنے والوں کے احتجاج سے حکمرانوں کا ووٹ بینک متاثر ہو جائے گا۔ حکومتی اداروں اور سرکاری عہدوں پر سفارش، اقربا پروری کی بنیاد پر تعیناتیاں کی جاتی ہیں جس کا مقصد گنے چنے افراد کو خوش کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات سے قومی ادارے اور حکومتی پرفارمنس مذید خراب ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مشکل اور غیر مقبول فیصلے نہیں کرنے تو پھر پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے کیسے نکالا جا سکتاہے؟ ٹیکس نیٹ کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ سالانہ کھربوں کا نقصان کیسے روکا جا سکتا ہے؟ حکومت کی کارکردگی اور پرفارمنس میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے؟ نگراں سیٹ اپ کو ایک لمبے عرصہ کے لئے چلانا ممکن نہیں۔ اسلئے پاکستان کے مستقبل اور عوام کی بہتری کے لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر میثاق معیشت کے ساتھ ساتھ میثاق گڈ گورننس پر اتفاق رائے کریں تاکہ جن معاشی اور انتظامی اصلاحات کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اُن پرجو بھی حکومت ہو من و عن عمل کرے اور اس پر کسی قسم کی سیاست کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی پالیسی نہیں چلے گی۔ اگر سیاست اور حکمرانی کا شوق ہے تو پاکستان کومعاشی اور انتظامی دلدل سے نکالنا ہی سب کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ ورنہ آپ کی سیاست ہمیں لے ڈوبے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ