بلوچستان میں کتاب کلچر زوروں پر : تحریر محمود شام


کچھ راتیں ہم منگلی کے شہر میں گزاردیں گے

تاکہ بادل جاکر۔ ہماری ہم ذات اور کم سن محبوبہ کو

ہمارے آنے کی خوش خبری سنادیں

پھر ایک رات

ہم اپنے شوخ اور عقاب بال گھوڑے کو ایڑ لگائیں

ہمارا چار نعل(گھوڑا) اچھلتا کودتا اور سر پٹ دوڑتا جائے

کسی کو اطلاع دیے بغیر ہم اپنے گھر پہنچیں

اور اوپر کی منزل پر آہستہ سے چڑھ کر دیکھیں

وہ مغموم صورت بنائے

ہمارے انتظار میں بیٹھی ہوگی

(بلوچی عشقیہ شاعری۔ مصنف:میر گل خان نصیر۔ باب:دیدار کے بیان میں ۔ناشر:بلوچی اکیڈمی کوئٹہ)

کیسے عظیم لوگ تھے۔ جیل میں بھی زندگی شعر و ادب پر تحقیق میں گزار دیتے تھے۔ قید فوجی آمروں کی ہو یا سیاسی آمروں کی۔ یہ خرد افروز جیل سے یا ملک سے باہر جانے کی نہیں سوچتے تھے۔ بلوچی عشقیہ شاعری۔سابق صوبائی وزیر بلوچستان۔ عظیم شاعر گل خان نصیر نے حید رآباد سینٹرل جیل میں مرتب کی۔ کتاب کے مختلف ابواب اس قیدی کے ذہنی سکون کی گواہی دیتے ہیں ۔خیالات کتنے منظم ہیں۔ پاکستان کی قومی زبانوں سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو، ہندکو کے بعد اب بلوچی اور براہوی زبانوں میں اکیسویں صدی کے ادب پر ہماری یہ تیسری تحریر ہے۔ اب تو بلوچستان گئے بھی کئی برس ہوگئے۔ وہاں ہمارا زیادہ وقت شاعروں ادیبوں میں ہی گزرتا ہے۔ بلوچی اور براہوی غزل ، نظم، افسانہ، ناول سب مزاحمت سے مالا مال ہیں۔ اس مزاحمت میں مختلف صدیاں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوڑے کی پیٹھ پر پہاڑ، چٹانیں عبور کرتی ہیں۔ ندیاں اور دریا بھی ان کا راستہ نہیں روکتے ہیں۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ بلوچی ادب میں رومان اور احتجاج کا ایک بہت دل آویز امتزاج ہے جس سے عشق جرات میں بدل جاتا ہے ۔ اور احتجاج ہجر و وصال میں۔

آج اتوار ہے۔ دوپہر کا کھانا اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ کھانے اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کا دن۔ واہگہ سے گوادر تک بہت سے شہروں میں اب یہ کلچر بنتا جارہا ہے۔ مشترکہ خاندان کی روایت مستحکم ہورہی ہے۔ اب ضرورت ہے۔ مشترکہ محلے داری کی روایت بحال ہونے کی۔ جب شہر بڑے نہیں تھے۔ اتنی ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی تو انسان ایک دوسرے کے بہت قریب تھے، دکھ درد میں شریک ہوتے، غم خواری ہوتی، چارہ سازی ہوتی، محلے کے مسائل محلے میں ہی حل ہوجاتے۔ برسوں کی تحقیق کے بعد بلدیاتی حکومتوں کا نظام بھی اس محلے داری کی ایک بہتر اور منظم صورت تھی۔ اس میں بھی آپ کے مسائل آپ کی دہلیز پر حل ہوجاتے ہیں۔

اب اس وقت مملکت خداداد پاکستان میں ہم جس سماجی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ یہاں ٹیکنالوجی ، مصنوعی ذہانت، جدید روابط اور انسانی نفسیات میں بھی کشمکش ہے۔ مختلف تہذیبوں کا بھی تصادم ہے، پھر اقتصادی دیوالیہ پن ہے،مینو فیکچرنگ کم ہوتی جارہی ہے، ہم صارفین کی منڈی بنتے جارہے ہیں،ایک سوئی بھی نہیں بنارہے، استعمال ہر نیا آلہ کررہے ہیں، ایک دوسرے پر شک کررہے ہیں، افسر کو ماتحت پر اعتماد نہیں ہے،خلق خدا کو اپنے حاکموں کا اعتبار نہیں ہے۔ ایسے میں محلے داری مزید ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔ میڈیا آپ کے حقیقی مسائل کی بجائے مصنوعی مسائل پیش کررہا ہے۔ جو خبرآپ سننا چاہتے ہیں۔ پورا دن اس کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔ اس لئے میری یہ گزارش ہے کہ ہر روز نہیں تو ہفتے میں ایک دن تو اتوار کو نماز عصر کے بعد اپنی مسجد میں ہی مل بیٹھیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو جانیں اور اپنی سطح پر اسے حل کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ کیونکہ وہ سسٹم جو انگریز نے بنایا تھا۔ جس سے مسائل اپنے وقت پر از خود حل ہوجاتے تھے۔ وہ ہم نے 76برس میں آہستہ آہستہ ختم کردیا ہے۔ بد ترین قسم کے قبائلی دور میں ہم داخل ہوچکے ہیں۔ با اثر مافیا آپ کے سسٹم پر قبضہ کرچکا ہے۔ اس پر مزید بات ہوتی رہے گی۔ ایک دوسرے کا خیال کیجئے، جو بھی آپ کے محلے میں رہتا ہے، غریب، متوسط طبقے کا۔ کرایہ دار یا مالک مکان، سب ایک دوسرے کی اخلاقی سماجی ذمہ داری ہیں۔

آئیے اب بلوچی براہوی ادب کی وادیوں میں سیر کو نکلیں۔ اکیسویں صدی میں بلوچی میں کیا کیا لکھا اور پڑھا جارہا ہے۔ یہ تو وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ بلوچ نوجوان۔ اور بلوچستان میں رہنے والا پشتون نوجوان سیاسی سماجی شعور میں بہت آگے ہے۔ وہاں کتاب پڑھنے کا کلچر۔ دوسرے سماجوں کے مقابلے میں زیادہ غالب ہے۔ ہم نے بڑی بڑی لائبریریوں کو خواتین اور مردوں سے بھرا دیکھا ہے۔ یہ شعور اور ادراک نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ کل اپنے رفیق کار صحافی اور پھر حکومت بلوچستان کے سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے سرور جاوید صاحب سے فون پر گفتگو ہوئی۔ بلوچی اور براہوی زبانیں ناول کی صنف میں بھی امیر و کبیر ہیں۔ جناب منیر بادینی بیورو کریٹ بھی ہیں دردمند بھی۔ وہ بلوچی میں 100سے زیادہ ناول تخلیق کرچکے ہیں۔ بعض ناولوں کے دوسرے ایڈیشن بھی شائع ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ناول شالین گل بازار بہت پڑھا گیا۔ آغا گل بھی ساتھ ہی یاد آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ان کی اپنی اصطلاحات ایک الگ ماحول پیدا کردیتی ہیں۔ غنی پرواز کے افسانے بہت مقبول ہیں۔ براہوی میں افضل مراد، وحید زہیر، نور خان محمد حسنی، تاج رئیسانی لائق ذکر ہیں۔

شاعری میں گوادر سے تعلق رکھنے والے مبارک قاضی اس وقت بلوچستان کے شعری افق پر چھائے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں بزرگوں میں یکساں مقبول۔ بلوچستان کے مزاج میں مزاح بہت کم قابل قبول ہے۔ مگر جبار یار مرحوم نے مزاحیہ شاعری میں نام پیدا کیا۔ زیادہ تر لکھنے والے بلوچی اور اردو دونوں میں لکھتے ہیں۔ مشاعرے کئی کئی زبانوں میں ہوتے ہیں۔ بلوچی میں رسالوں کی روایت بھی بہت مستحکم ہے۔ یہ بھی بیسویں صدی سے بلوچی اور اردو دونوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی ادبی سیاسی گروپ ہیں۔ جہاں نہ صرف نئی شاعری سننے ، پڑھنے کو ملتی ہے۔ بلکہ ادبی بحثوں میں بھی انتہائی اہم موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔

بلوچی ناول پر مزید بات ہوگی کہ پاکستان بھر کے اہل ذوق کوبلوچی ناولوں کے موضوعات سے با خبر ہونا چاہئے۔ کئی کتابوں کے مصنف رمضان بلوچ کو ہم نے زحمت دی۔ کراچی میں بھی بلوچی اوربراہوی کے شاعر، ناول نگار بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ یہاں بھی بلوچی ناول، افسانوی مجموعے شائع ہوتے ہیں۔ لیاری، ملیر اور اردو بازار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ان پر بھی کچھ سطور آئندہ۔ ہماری قومی زبانیں معیاری اور اعلی ادب سے مزین ہیں۔ کاش ہم ان کو اردو اور پھر معیاری انگریزی میں ترجمہ کر کے زیادہ قارئین تک پہنچا سکیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ