لارڈ اسمے دوسری عالمی جنگ میں چرچل کے قریب ترین عسکری مشیر تھے۔ جنگ کے بعد نیورمبرگ ٹرائل شروع ہوا تو شکست خوردہ جرمن رہنماؤں کے خلاف فرد جرم میں حقیقی جرائم (مثلاً جنگی قیدیوں اور شہریوں کا قتل عام، نسل کشی، عقوبت خانے، شہری آبادیوں پر مظالم اور مقبوضہ علاقوں میں دانستہ تباہ کاری وغیرہ) کے علاوہ کچھ لایعنی الزامات بھی شامل تھے۔ لارڈ اسمے نے چرچل سے یہ بات چھیڑی تو بوڑھے چرچل کا جواب معنی خیز تھا، ’خیال رکھنا کہ اگلی جنگ میں ہمیں شکست نہ ہو۔ گویا چرچل تسلیم کر رہا تھا کہ یہ مقدمات دراصل مفتوحہ فریق پر فاتح کا مسلط کردہ انصاف تھے۔ ایسے انصاف میں ہارنے والے شیطان اور فاتح فرشتہ قرار پاتے ہیں۔ اتحادی قوتوں نے فسطائیت کے مظاہر مثلاً آمریت، جارحیت، توسیع پسندی، نسل پرستی، نسل کشی، ایذا رسانی، گروہی امتیاز اور معاشی استحصال کو جنگ کا جواز ٹھہرایا تھا حالانکہ سوویت یونین بھی ایسے تمام جرائم میں ملوث تھا۔
ہم سادہ دلوں کو تو بتایا گیا تھا کہ چرچل اور روز ویلٹ فاشزم کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔ آئزن ہاور نے فیلڈ مارشل منٹگمری کی احتیاط پسندی اور جنرل پیٹن کی جارحانہ حکمت عملی میں توازن قائم کر رکھا ہے۔ نازی فلسفہ تو بہرصورت ناقابل قبول تھا تاہم امریکی افواج کے ’کارناموں‘ پر بہت دیر پردہ پڑا رہا۔ 1989 میں James Bacque نے Other Losses کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آئزن ہاور نے جنگ کے بعد دانستہ دس لاکھ جرمن جنگی قیدی ہلاک کئے۔ ریڈ کراس کے مطابق 28 لاکھ جرمن فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے لیکن امریکی ریکارڈ میں صرف 18 لاکھ قیدی تھے۔ اس کتاب کی اشاعت سے طوفان کھڑا ہو گیا۔ سرکاری تاریخ نویسوں سے تردید کرائی گئی۔ 1992 میں سوویت یونین منہدم ہوا تو جیمز باک نے روسی دستاویزات کی مدد سے اپنا دعویٰ ثابت کیا۔ امریکی فوجیوں کے مظالم کی تحقیق کرنے والے کرنل ارنسٹ فشر نے تصدیق کی کہ امریکی اور فرانسیسی فوج نے دس لاکھ جرمن قیدیوں کو بیماری، بھوک اور موسمی شدائد کے ہاتھوں مرنے دیا۔ جاننا چاہیے کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکی فوجیوں کی کل اموات چار لاکھ سولہ ہزار تھیں۔ اس میں ایک لاکھ دس ہزار امریکی فوجی جاپان سے لڑائی میں کام آئے۔ گویا مغربی محاذ پر کل امریکی اموات تین لاکھ تھیں۔ اس جنگ میں روسی اموات کی تعداد دو کروڑ ستر لاکھ تھی جن میں سے 87 لاکھ فوجی اورایک کروڑ نوے لاکھ عام شہری تھے۔ جرمن قیدیوں سے بھیانک سلوک میں آئزن ہاور کے ذاتی انتقام کو بھی دخل تھا۔ اس کے یہودی آباؤاجداد اٹھارہویں صدی میں جرمنی سے امریکا آئے تھے۔
تاریخ میں فرد اور اجتماع کی اخلاقیات میں ہمیشہ سے تفاوت رہا ہے۔ ایک فرد کے لیے جو فعل جرم کہلاتا ہے، وہی ناانصافی قوم، مذہب، نسل اور زبان کے نام پر جواز حاصل کر لیتی ہے۔ صحافتی خبر المیہ بیان نہیں کر سکتی، اس کی کاٹ تفصیل میں ملتی ہے۔ عزیز دوست حبیب اکرم نے اگلے روز لکھا۔ ’ عمران خان نام کے ایک شخص کو لوگوں نے ووٹ دے کر اپنا وزیراعظم بنایا تھا، اس وقت یہ نامعلوم جرم میں اٹک جیل میں بند ہے، عمران خان مانگ بھی کیا رہا ہے جو آئین میں صاف صاف لکھا ہے یعنی الیکشن‘۔ اس بظاہر سادہ بیان کی تفصیل میں عفریت چھپے ہیں۔ عمران خان شفاف انتخابی عمل میں منتخب نہیں ہوئے وہ قوم کے خلاف ہائبرڈ نظام کے جرم میں شریک تھے۔ ان کا انتخاب بالادست شریک اقتدار کی زور آوری کا نتیجہ تھا۔ پارلیمانی نظام میں عوام وزیراعظم منتخب نہیں کرتے، وزیراعظم کی میعاد ایوان کے اعتماد سے مشروط ہے۔ ہائبرڈ نظام میں اختیار کے متوازی سرچشموں میں اختلاف لازم ہے اور یہ حادثہ اکتوبر 2021 میں ہوا۔ 26 نومبر 2022 کو نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل لانگ مارچ سے واضح ہو گیا کہ مارچ 2022 میں عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا درست تھا کیونکہ وہ اپنے پسندیدہ کرداروں کو عسکری قیادت سونپ کر اقتدار پر مسلط رہنا چاہتے تھے۔ ان کی معاشی اور سفارتی کارکردگی مایوس کن تھی۔ وہ صدارتی نظام کے خواہاں تھے۔ انہوں نے 27 فروری 2022 کو آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کر کے معیشت پر خودکش حملہ کیا۔ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد دستوری تقاضوں سے انحراف کے لئے ایک جعلی عالمی سازش کی آڑ لی۔ مضحکہ خیز طریقے سے قومی اسمبلی توڑنے کی کو شش کی۔ عدم اعتماد کا دستوری ضابطہ ماننے کی بجائے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا۔ اپنی جماعت کے منحرف اراکین کے لیے خوف و تحریص کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کرنا چاہا۔ بالآخر 9 مئی کو جمہوری بندوبست لپیٹنے کی سازش کی۔ عمران خان 2014سے اپنے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں رہے ہیں۔ وہ اسی نظام عدل کے ذریعے سزا یافتہ ہوئے ہیں جسے وہ اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار سمجھ کر استعمال کرتے رہے۔ عمران خان کا مطالبہ محض انتخاب نہیں بلکہ 2018 کے نمونے پر انتخاب کی خواہش ہے۔ تاریخ آگے بڑھ چکی ہے۔ عمران خان کی پارٹی چھوڑنے والے عناصر 2011 سے 2018 تک ہانکا کر کے ان کی جھولی میں ڈالے گئے۔ درحقیقت عمران خان اور ان کے سرپرستوں نے قوم کے پندرہ برس ضائع کئے ہیں۔ معیشت کی موجودہ حالت عمران خان کے عرصہ اقتدار کا تسلسل ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے خلاف ریاستی زور آوری کا دفاع نہیں کیا جا سکتا لیکن عمران خان جمہوری سیاست مسترد کر کے غیر سیاسی بگولوں کے تعاقب میں اٹک جیل پہنچے ہیں۔ انہوں نے قوم کے سیاسی ارتقا اور معاشی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھائے۔ اپنے پیروکاروں کی سیاسی تربیت کرنے کی بجائے انہیں اپنی ذات کا اسیر بنایا۔ مورخ عمران خان کو پاکستانی سیاست کی غیر جمہوری روایت کے ایک نشان کی صورت میں یاد رکھے گا۔ عزیز محترم حبیب اکرم کو اپنی رائے کا پورا حق ہے لیکن عمران خان کی مظلومیت میں اتنی ہی حقیقت ہے جتنی آئزن ہاور کی عسکری اصول پسندی میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ