۔ پاکستان 1947 میں کہنے کو تو آزاد ہو گیا تھا لیکن وہ تمام طبقات جو انگریز سامراج سے مفادات حاصل کرنےکے عوض ان کی سہولت کاری کرتے تھے قیام پاکستان کے بعد وہ حکمران بن گئے اور ان کے ہاتھوں عوام کیلئے غلامی اور جبر کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ جاگیرداری نظام انگریز کی پیداوار تھا پاکستان بننے کے بعد یہ ظالمانہ نظام نہ صرف جاری و ساری رہا بلکہ اس میں ریاستی طاقتور طبقات اور سرمایہ دار بھی شامل ہوگئے اور پھر ریاستی اقتدار انہی طبقات کی رکھیل بن کر رہ گیا۔ اور اس 2 فیصد طبقہء بدمعاشیہ نے ملک کے لوگوں کو یرغمال بنا کر ملکی وسائل پر قبضہ کر لیا۔ دنیا میں انسانی ترقی کے معیار: تعلیم،صحت،روزگار، صاف پانی اور سماجی اور معاشی آزادیوں سے منسلک ہوتے ہیں لیکن ملک کے 70فیصد عوام بدستور ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہے۔40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گذار رہے تھے جو اب مہنگائی کی وجہ سے 60 فیصد ہو گئے ہیں۔ ملکی وسائل چند مقتدر طبقات کے لوٹنے کیلئے وقف کر دیئے گئے۔ ملکی قدرتی اور قومی وسائل جن کے استفادہ کا حق ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے،وہ صرف دو فیصد اشرافیہ کے قبضہ میں آگئے۔انگریزی مارکہ بیوروکریسی ،جن کا کام ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے بنیادی کام کرنا ہوتا ہے قومی وسائل کی لوٹ مار میں کرپٹ سیاستدانوں کی سہولت کاری اور وہ بھی’ قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند ‘ کے ریٹ پر کام کرتی رہی۔آزاد کشمیر کی ہائیڈل جنریشن، بلوچستان اور فاٹا کے سونے ،چاندی اور دیگر معدنیات کے کھرب ہاء ڈالرز کے ذخائر غیر ملکی سامراجی سرمایہ کار کمپنیوں کے حوالہ کر دی گیئں۔ جہاں سے وہ اس عوامی دولت کو لوٹ کر لے سالانہ اربوں ڈالر زائد اپنے اپنے ملکوں میں بھیج رہے ہیں اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ڈالر کہاں غائب ہو رہے ہیں؟ لیکن اس ساری لوٹ مار کے اعداوشمار سے ملک کے عوام لاعلم ہیں۔ بجلی جو اب نہ صرف انسانی ضرورت بن گئی ہے بلکہ صنعتی ترقی کی بنیاد ہے وہ پرائیویٹ پاور کمپینوں کے حوالہ کر کے اتنی مہنگی کر دی گئی کہ صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا۔ بے روزگاری اور غربت نے ملک کے کروڑوں انسانوں کو سماجی اور معاشی غلامی کی زندگی میں دھکیل کر شرف انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔ پاور پلانٹس لگانے کے جو معائدے کئے گئے وہ معاشی غلامی ہی نہیں بلکہ انتظامی بے غیرتی کی ہولناک مثال ہیں وہ اگر بند بھی رہیں پھر بھی اپنی پوری استعداد کے مطابق کیپیسٹی چارجز کے نام پر حکومت سے پوری وصولی کرینگے۔جو سالانہ ایک کھرب 30 ارب روپیہ ناجائز وصول کر رہے ہیں۔ سابقہ صدر پرویز مشرف کے بقول ان پراجیکٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کے فی یونٹ ریٹ میں ڈالر کے ایک سینٹ کے اضافے کیلئے ایک ارب روپے کی رشوت کا ریٹ تھا۔ بجلی کی چوری، مقتدر طبقاب کو مفت بجلی۔لائن لاسسز اور اس پر سات قسم کے ٹیکس اور پھر سرکلر ڈیٹ کے کھرب ہاء روپے عوام کے بجلی کے بلات میں شامل کر کے ان سے بطور بھتہ وصول کئے جاتے ہیں جو اب غریب لوگوں کیلئے خود کشی کا پھندا بن گیا۔ پاکستان کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کیلئے آزاد کشمیر کیلئے بھی وہی شکنجے کسے گئے تا کہ سب کی برابر چیخیں نکلیں۔ان معاہدو کو اس لئے ختم نہیں کیا جا سکتا کہ اس لوٹ مار میں ملک کے سرمایہ دار طاقتور طبقات کے لوگ شامل ہیں جن کے پیٹ ہیں کہ بھرنے میں ہی نہیں آرہے ہیں۔۔ ایک اور بڑا فراڈ اور ڈکیتی عوام کے نام پر، خوبصورت اصطلاحات کے پیچھے چھپ کر کی جاتی ہے۔ سبسڈی، سپورٹنگ پرائس، ریبیٹ، ٹیکس ایمنسٹی، جیسے نام استعمال کر کے 17 ارب ڈالر سالانہ سرمایہ داروں کو دینے جاتے ہیں ۔ آپ نے پڑھا ہو گا کہ دو سال پہلے 3 ارب ڈالر چند لوگوں کو صنعتی قرضہ کے نام پر دیا۔ ایک ماہ کے انڈر اندر انہوں نے ظاہر کیا کہ ان کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی ہیں اس پر 3 ارب ڈالر کا قرضہ معاف ہو گیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو ان قرضہ خوروں کے نام بھی بتانے سے انکار کر دیا گیا کہ یہ ملکی مفاد میں نہیں کہ ان کے نام بتائیں جائیں ۔جہاں قومی وسائل کی ڈکیتی ملکی مفاد کہلائے وہاں ملک کی ڈاکو مقتدر اشرافیہ سے ملک کی آزادی کی جنگ لازمی ہو جاتی ہے۔لیکن ایک باشعور عوامی جدوجہد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ نعرہ باز جعلی انقلابی ایسی تحریکوں میں گھس کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں،اور عوام کو لوٹنے والے اصل استحصالی طبقات پس پردہ ہی رہتے ہیں ۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان جنگ اقتدار کی جنگ ہے۔ ملک کے استحصالی طبقات کی لوٹ مار کے ظالمانہ نظام کے ظالمانہ پہلوؤں اور کے خاتمہ کیلئے کبھی ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ انقلاب اور آزادی کے جعلی نعروں سے لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔ لیکن آخرکار نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ ہر بار جاں لٹاتی رہی خوش گماں یہ قوم۔ لگتے رہے ہیں نعرے بہت انقلاب کے۔۔ آنکھوں میں جو بسائے اجالوں کے خواب تھے۔ آنکھیں کھلیں تو آمروں کے انقلاب تھے۔