اچھا کام : تحریر مزمل سہروردی


ایک خبر کے مطابق حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے بارہ معزز ججز کو گھر بنانے کے لیے 361ملین روپے کی خطیر گرانٹ منظور کی ہے۔ اس گرانٹ سے بلا سود قرضے جاری کیے جائیں گے۔

بارہ سال میں یہ بلا سود قرضہ واپس لیا جائے گا۔اس دورانیے میں جو جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے ان کی پنشن سے قسط کاٹ لی جائے گی۔ ہر جج کو اس کی 36تنخواہوں کے مساوی بلا سود قرضہ جاری کیا گیا ہے۔

ہر جج کی تنخواہ نو لاکھ بارہ ہزار روپے ہے۔ لہذاہر جج کو تین کروڑ 28لاکھ 32ہزار کا بلا سود قرضہ دیا گیا ہے اور یہ رقم یک مشت ادا کی گئی ہے۔
معزز جج صاحبان کو گھر بنانے کے لیے بلا سود قرضہ دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں لوگوں کو گھر دینا ریاست کا بنیادی فرض ہے۔

ہر جج کے پاس اپنا گھر ہونا چاہیے۔ بے گھر ججز کو اپنے گھر بنانے کے لیے ایسے بلا سود قرضے دیے جانے چاہیے۔

مجھے امید ہے کہ نگران حکومت کے اس تاریخی کام کے بعد باقی صوبائی حکومتیں بھی اس روایت کوآگے بڑھائیں گی۔ میں تو حیران ہوں کہ صرف لاہور ہائی کورٹ کے بارہ ججز کو ہی کیوں یہ قرضے دیے گئے ہیں سب کو کیوں نہیں دیے گئے۔

اس کا جواب تو پنجاب حکومت ہی دے سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں حکومت پنجاب نے بہت کنجوسی سے کام لیا ہے کیونکہ تین کروڑ میں اچھا گھر بنانا بہت مشکل ہے۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ گھر بنانے کے لیے تو رقم دے دی گئی ہے لیکن پلاٹ کہاں ہیں ہو سکتا ہے کہ پلاٹ ان کے پاس پہلے سے ہوں۔

پنجاب نے ویسے بھی ہمیشہ گڈ گورننس کی قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ریسکیو 1122کی سہولت سب سے پہلے پنجاب میں شروع ہوئی پھر تمام صوبوں نے اس کی تقلید کی۔ اسپتالوں کو بہتر کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے پنجاب میں شروع ہوا پھر تمام صوبوں نے اس کی تقلید کی۔

اسی طرح بے شمار شعبوں میں ایسی اصلاحات کی گئی ہیں جن کی بعد میں دیگر صوبوں نے پیروی کی ہے۔ انڈر پاسز اور پل بنانے کا سلسلہ بھی پہلے پنجاب میں شروع ہوا۔ پھر سب جگہ پہنچ گیا۔ ماس ٹرانزٹ بھی پہلے پنجاب میں شروع ہوئی پھر سب نے نقل شروع کر دی۔

پنجاب میں سب سے پہلے جب میٹرو بس چلائی گئی تو سیاسی مخالفین کی جانب سے اسے جنگلہ بس سروس کہا گیا۔ بہت مذاق بنایا گیا۔ وسائل کا ضیاع قرار دیا گیا۔ لیکن آج دیکھ لیں سب صوبے ہی نہیں مرکز بھی اس کی تقلید کر رہا ہے۔

میں نے یہ سب مثالیں اس لیے لکھی ہیں کہ پنجاب حکومت کے اس اقدام پر مجھ جیسے کئی لوگ بہت تنقید کریں گے کہیں گے کہ پاکستان کے مالی حالات دیکھیں اور اس رعایت یا سہولت کو دیکھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔

لیکن لوگ تو ہر کام میں کوئی نہ کوئی تنقیدکا پہلو نکال ہی لیتے ہیں جیسے جج صاحبان کی تنخواہوں اور مراعات کو لے کر بہت شور مچایا گیا ہے۔ لیکن یہ سب فضول تنقید ہے۔ اس کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

مجھ جیسے لوگ یہ سوال بھی کریں گے کہ ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر عام آدمی کو بجلی کے بلوں میں ریلیف نہیں دے سکتی۔ پھر یہ بلا سود قرضے آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر کیسے ہو گئے۔ لیکن یہ بھی کمزور دلیل ہے۔

مخالفین یہ بھی کہیں گے ان پیسوں سے کتنے غریبوں کی مدد ہو سکتی تھی۔ کتنے لوگوں کا علاج ہو سکتا تھا۔ کتنے بچوں کو اسکالر شپ دیے جا سکتے تھے۔ لیکن یہ سب بے وزن باتیں ہیں۔ اہل عقل و دانش انھیں پہلے بھی کم عقل دلائل قرار دے چکے ہیں۔ اس لیے اب بھی مجھے یقین ہے کہ تنقید کرنے والے تھک ہار کر خاموش ہو جائیں گے۔

ایسے پراپیگنڈے ایک منظم حکمت عملی کے تحت کیے جاتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگوں کو پہچاننا ہوگا جو پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں عدلیہ بہت صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے ورنہ یہ سب لوگ توہین عدالت میں جیل میں بھی ہو سکتے تھے۔

خبر کے مطابق اس بلا سود قرضے کی خواہش ظاہر کی گئی اور اس کو منظور کر لیا گیا۔ ورنہ میں حیران تھا کہ پنجاب حکومت کو از خود بخود اتنا بہترین خیال کیسے آگیا۔

بہرحال بات پہلے کس کے ذہن میں آئی اس سوال کی کوئی وقعت نہیں ہے اصل معاملہ اچھا اقدام ہونے کا ہے اور وہ ہو گیا ہے یہ جان کر مجھے بہت اطمینان ہوا ہے۔ اور میرا ضمیر بھی مطمئن ہو گیا۔

تنقیددو دھاری تلوار ہوتی ہے ۔ایک اچھے کام پر بھی تنقید کا کوئی نہ کوئی پہلو نکل ہی آتا ہے اور ایک غلط کام میں بھی بہتری کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہوتا ہے۔

اس لیے تنقید بہت سے معاملات کو زیادہ بہتر کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔جس اچھے کا م میں تنقید کا پہلو نکلے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس میں جو خامیاں ہیں انھیں دور کر لیا جائے اسی طرح کسی ایک غلط کام میں اچھا پہلو ہو تو غلطیوں کو درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آگے فیصلہ سازوں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس