میں اپنےپوتے کو کہانی کتاب میں سے سنا رہی تھی۔ اس کی عمر 9سال ہے ۔ اسپین سے آیا تھا۔پرانی کہانیوں میں بادشاہ ،غلام اور جن ہوتے ہیں جو پری یا شہزادی کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ کسی چڑیل نے شہزادی کوقیدکیا ہوتا ہے۔ اس کو چھڑانے کیلئےجن یہ شرط عائد کرتا ہے کہ آپ غلام کو آزاد کر کے میرے ساتھ بھیجیں۔ ہم دونوں شہزادی کو آزاد کروا کے آپ کے پاس لے آئینگے۔ میرا پوتا بہت سوال کرتاہے۔ مجھے ٹوک کر بولا ’’غلام کون ہوتا ہے‘‘۔ اب میں اس مخمصے میں پڑ گئی کہ کیا بادشاہوں کے زمانے کی داستان سنائیں۔ جب بتایا کہ وہ کس طرح بگھیوں میں نکلتے آگے پیچھے گھوڑے اور ان کے ساتھ تلواروں والے چلتے اور نگہبانی کرتے تھے۔ پچھلا سوال وہیں رہ گیا۔ پوتا اچک کر بولا ’’دادی ہمارے ملک میں تو بادشاہ ہیں‘‘ میں بولنے لگی ، مجھے ٹوک کر ٹی وی کی طرف اشارے کر کے بولا سامنے ٹی۔ وی پر 24گاڑیوں کی قطار تھی۔ آگے پیچھے پولیس اور لوگ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ میں گنگ ہو گئی ۔ وہ اچھل کر میرے ساتھ بیٹھ کر پھر بولا یہ گاڑی کے ساتھ بھاگنے والے غلام ہیں نا۔ دادی آپ بھی تو غلام ہیں۔ آپ خود گاڑی چلاتی، ہنڈیا پکاتی ہو۔ اچھا یہ کہانی چھوڑیں مجھے وہ چوہیا والی کہانی سنائیں۔ آپ نے ایک دفعہ بتایا تھاکہ وہ بہت پڑھی لکھی تھی۔ بہت مشکل زبان بولتی تھی۔ اس نے ایک دفعہ کہا تھا ’’آدمی کے دماغ میں یہ خناس سمایا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ دنیا کا تھانیدار بنا ہوا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ جب دنیا کے کاروبار میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں اور ہماری سنی بھی تو نہیں جاتی تو بولنے کا کیا فائدہ۔ ‘‘ارے یہ تو انتظار صاحب نے لکھا۔ تم نے کیسے پڑھ لیا۔ اس نے کہا، آپ سے ایک دفعہ سنی تھی یاد رہی۔
دیکھئے میں 9برس کا ہوں مگر جب سے آپ کے پاس پاکستان آیاہوں۔ ہر طرف احتجاج اور نعرے میڈیا پہ اور اخباروں میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ سارے غریب، بغیر کسی لیڈر کے سڑکوں پر عورتیں اور مرد، پتیلے بجاتے ، توے بجاتے میری عمر کے بچوں کو بھی ساتھ لئے ہوئےہیں۔ میں نے ٹی وی بند کر کے اسے بتایا کہ یہ شبھ گھڑی ہی ہے کہ اس وقت عوام بغیر کسی سہارے اور نعرے کے خود ہی اپنی مصیبتیں بتانے سڑکوں پر ہیں۔’’ دیکھیں ہمارے ملک میں پیری فقیری بہت چلتی ہے‘‘اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا، ہاں میں نےدیکھا ملتان میں کوئی عرس ہو رہا تھا۔ اس پر عام لوگوں نے اس فیملی کے لوگوں کو دھکے دے کر باہر کر دیا تھا ۔ میں نے ہنس کر کہا’’تم اتنی جلدی سیاست میں دخل دینے لگے ہو‘‘۔ وہ بولا ’’دادی! ہمارے یہاں تو ہمیں اسکول میں پڑھائی اور قانون کی تفصیل سمجھائی جاتی ہے‘‘۔ ہمارے یہاں حال کچھ اور ہے۔سیاست دان بنے ہوئے لوگ ہر وقت جہاز پہ دبئی سے کراچی یا لندن گھومنا بند کر دیں۔ اب تک کسی نے اگلے آنے والے الیکشن کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جانتے بھی ہیں کہ اب نہ نوٹوں کی گڈیاں چلیں گی نہ وراثتی سیاست، 76 سال ساری قوم کو بہت پاگل بنا لیا۔ ایک دوسرے کے عیب گنا گنا کر ہمیں 76سال سے بے وقوف بنائے جا رہےہیں۔ دیکھو نا آج کل سولر انرجی کا شور مچا ہے۔ میں نے ہمت کر کے ایک پارٹی سے پوچھا کہ مجھے تو اس کمرے کے لئے یہ ہتھیار چاہئے۔ مالک بولا ’’آپ 7لاکھ روپے دے دیں پنکھا،ٹی وی چلتا رہےگا۔اور اے سی ؟بولا وہ بھی چلے گا بس چار گھنٹے۔ میں نے کہالعنت بھیجو، اول تو سات لاکھ قرض لے کر دو، ملےگا بھلا کیا، اب اخبار اور نگراں کے بیانات، سولر انرجی ، ملک بھر میں پھیلانے کے دعووں کے ساتھ پورے پورے صفحے کے اشتہارات آرہے ہیں۔ تعلیم کی بات کرو تو کہتے ہیں چینی کی قیمتیں یا آٹے کی قیمتیں دیکھو۔ بس بس دادی میں آپ کو بتاؤں ہمارے ملک میں دو بزرگ میاں بیوی ریسٹورنٹ میں آئے۔ ایک سینڈوچ کا آرڈر دیا پھر انہوں نے سینڈوچ کے دو ٹکڑے کئےتو بل والا بولا سر جی اب آپ کو دو سینڈوچ کے پیسے دینا ہونگے۔ ہمارے ملک اسپین میں روٹی کے سوکھے ٹکڑے بند لفافےمیں ملتےہیں اور ہم لوگ شوربے میں بھگو کر یہ کھانے لگتے ہیں۔پوتا بولا دادی موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں نے ٹی وی پر سنا ہے کہ سائنسدان کہہ رہے ہیں بہت سی آبی مخلوقات بہت سے کیڑے مکوڑے خوبصورت تتلیاں اور جگنو بھی ختم ہو جائینگے۔ میں نے ٹوکتے ہوئے کہا ’’تم کیا بزرگوں کی طرح باتیں کرنے لگے ہو‘‘۔ دیکھیں پاکستانی لڑکی نے آئن اسٹائن سے زیادہ نمبر پندرہ سال کی عمر میں لئے ہیں۔ وہ بولا یہاں جس دن سے پاکستان میں ہوں۔ بس سب ایک ہی پریشانی میں زور زور سے بول رہے ہیں۔ ’’ہاے ادرک ، ہائے لہسن اور دادی مجھے پنیر کھانے کی عادت ہے۔ مگر یہاں بہت مہنگا ہے۔ زیتون بہت کھاتا ہوں۔ وہ بھی بہت مہنگا۔ آپ نے کہا تھا ہم بادام اور اخروٹ کھاتے ہیں۔ آپ مجھے وہ بھی روزانہ دو دانے دے کر کہتی ہیں۔ ’’اب بس‘‘ پیکٹ کا جوس آپ پینے نہیں دیتیں۔ کولڈ ڈرنکس کے لئے تو آپ کی ڈاکٹر نے بھی مجھے منع کیا تھا مگر ہروقت یہ اشتہار کیوں چلتے ہیں‘‘۔
میں نےاس کے سوالوں سے تنگ آ کر پوچھا ’’تمہارے ملک میں اسمگلنگ چوریاں وغیرہ نہیں ہوتیں۔ جھٹ بولا میں نے دیکھا ہے وہ سب پکڑے ہی نہیں جاتے۔ پیچھے سے سیاست دان نام کے لوگ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ ویسے دادی! آپ ہمارے ملک آجائیں۔ وہاں لائٹ نہیں جاتی وہاں مہنگائی توہے ماما نے بھی انڈے اور دودھ منگوانا کم کر دیے اور پاپا نے دوستوں کو کہا ہے ’’ پارٹی کرنی ہے تو اپنی اپنی ڈش لےکر آؤ۔ آپ کے ہاں مہمان خالی ہاتھ آ جاتے ہیں‘‘۔ میں زچ ہو کر بولی ’’ ایسانہیں کبھی کوئی لاتا ہے کبھی کوئی ،ہم دوست مل جل کر کھاتے پیتے ہیں‘‘۔پوتا ہنستے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگا کوئی عورت،غریب عورتوں کو آٹے کےتھیلے دےرہی تھی۔ وہ سر پر رکھے جا رہی تھیں۔ فوراً بولا اس نے سر پہ دوپٹہ نہیں رکھا۔ یہ ایران نہیں ہے یہ پاکستان ہے یہاں آزادیاںہیں۔ وہ ہنس کر بولا ’’تو پھر ایک سو روپے والی آئس کریم ہی ہو جائے۔‘‘
دونوں ہنستے ہوئے اٹھے اور آئس کریم کھانے لگے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ