گذشتہ دنوں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ پاکستان کے بڑے کاروباری طبقہ کی دو طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں شرکت کرنے والے چند ایک کاروباری افراد نے میڈیا کو ان اقدامات کے بارے میں بتایا جو آرمی چیف پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اٹھارہے ہیں۔
یہ خوشخبری سنائی گئی کہ تقریبا ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئندہ دو چار سالوں میں پاکستان میں دوست مسلم ممالک سے آ رہی ہے جس کو ممکن بنانے کے لئے اور ہر قسم کی رکاوٹ کو دور کرنے لئے پہلے ہی سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) بنا دی گئی ہے جس میں فوج کا کلیدی کردار ہو گا۔
اس کے علاوہ آرمی چیف کی طرف سے کاروباری طبقہ کی توجہ دلانے پر متعلقہ کور کمانڈرز کو ہدایات دی گئیں کہ فوری طور پر پیٹرول اور دوسری اشیا کی ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو روکا جائے، ڈالر مافیا جو روپیہ کی بے قدری کا باعث بن رہا ہے اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، پلاٹوں پر قبضہ کرنے والے مافیا کو ختم جائے، کراچی میں سسٹم جو وہاں کرپشن مافیا چلا رہا ہے اسے کچلا جائے۔
کچھ اور اقدامات کے علاوہ کرپشن کے خاتمہ کا بھی تحیہ کیا گیا۔ کاروباری طبقہ ان میٹنگز کے بعد پرامید نظر آیا اور ایک دو دن میں ہی ڈالر اور اسمگلنگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا جس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے اور دو دنوں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر روپے کے مقابلہ میں تقریبا 20روپے گر چکا۔
ایک کاروباری شخص نے آرمی چیف کے حوالے سے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں، چند ایک سیاستدانوں کے نام بھی لئے گئے کہ کیسے انہوں نے پیسہ بنایا۔ اس حوالہ سے اگرچہ ایک اور کاروباری شخصیت نے یہ وضاحت کی کہ آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہیں کی لیکن یہ وہ معاملہ ہے جس پر فوج کے ترجمان کی طرف سے وضاحت آنی چاہئے تھی۔
بحرحال جو کچھ آرمی چیف نے پاکستان کی معیشت کی بہتری اور کچھ بڑی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے جو اپنی ویژن دی اسے کچھ لوگوں نے عاصم ڈاکٹرین کا نام دیا۔ اسے عاصم ڈاکٹرین کہیں یا آرمی چیف کی ویژن یا منصوبہ، جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ پاکستان اور پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے ہے۔
آرمی چیف نے یہ اقدامات کیوں اٹھا رہے ہیں اس سوال پر غور کئے بغیر ہم پاکستان کے گورننس سسٹم کی اصل بیماری کو نہیں پکڑ سکتے اور جب تک بیماری کو نہیں پکڑیں گے تو اس کا علاج ممکن نہیں۔ اگر علاج نہیں ہوگا تو یہ فوج یا کسی بھی سپہ سالار کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ پاکستان کی ہر خرابی کو درست کرنے کے لئے فوج کی ہی ڈیوٹیاں لگائی جائیں جو نہ صرف ناممکن بلکہ اس سے فوج کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے توجہ کم ہو سکتی ہے۔
ہمارے گورننس سسٹم کی اصل بیماری ہماری سول سروس جسے آپ سول انتظامیہ یا انتظامی مشینری یا افسر شاہی بھی کہہ سکتے ہیں، کی مکمل ناکامی اور غیر فعال ہونا ہے۔ سول انتظامیہ چاہئے وہ وفاقی وزارتیں ہوں، صوبائی ڈیپارمنٹس، کارپوریشن، بجلی گیس پانی کے ادارے، پولیس، اسسٹنٹ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، سی ڈی اے، ایل ڈی اے، کے ڈی اے یا کسی بھی سول ادارے کا نام لیں سب کا برا حال ہے۔ کوئی اپنا کام نہیں کر رہا۔
رشوت، سفارش کا بازار ہر طرف گرم ہے جبکہ جائز کام کے لئے لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ عاصم ڈاکٹرین کچھ شعبوں میں ایک فوری یا مڈ ٹرم حل تو تجویز کر سکتا ہے لیکن اگر اصل بیماری یعنی سول ایڈمنسٹریشن کی نااہلی اور ناکامی کی وجہ تلاش کر کے اس کا حل تجویز نہیں کیا جاتا تو ہمارا مستقبل خطرہ میں ہی رہے گا۔
بیماری کیا ہے؟ وہ ہے ہماری سول سروس، سول انتظامیہ کا سیاست زدہ ہونا، یعنی ہر لیول پر تعیناتیاں سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور میرٹ، اہلیت، تجربہ کی بنیاد پر صحیح افسر کو صحیح جگہ تعینات کرنے کا رواج ہی ختم ہوچکا۔
قانون، پالیسیاں، گائیڈ لائنز سب موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا اور ہر افسر سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر اہم پوسٹوں پر لگنا چاہتا ہے چاہے اس کے لئے وہ موزوں ہو یا نہ ہو جبکہ سرکاری افسران کی کیرئیر پلاننگ کرنے والے متعلقہ ادارے اسٹبلشمنٹ ڈویژن (وفاق میں) اور سروس اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹس (صوبوں میں) محض پوسٹ آفس کا کردار ادا کر ہے ہیں۔
یعنی ان کے پاس سفارشیں آتی ہیں اور ان سفارشوں کی بنیاد پر عہدوں پر سفارشیوں کو تعینات کر دیا جاتا ہے اور یہ سفارشی عوام اور قوم کی بجائے ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس بیماری نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا۔
سول سروس کے برعکس فوج کی بحیثیت ادارہ بااثر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی اپنی رشتہ داری یا تعلق کی وجہ سے کسی فوجی افسر کی پوسٹنگ، ٹرانسفر میں مداخلت نہیں کر سکتا، وہاں ہر افسر کی تعیناتی، ترقی، ٹریننگ ایک ضابطہ کے ساتھ قابلیت میرٹ اور ادارہ کی بہترین طریقہ سے serve کرنے کی بنیاد پر افسران کی کیرئیر پلاننگ کی جاتی ہے جو جی ایچ کیو کے ملٹری سیکریٹری برانچ کا کام میں۔ ملٹری سیکریٹری برانچ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا اور یہی فوج کی بحیثیت ادارہ کامیابی کی وجہ ہے۔
سول سائیڈ کی بیماری کا علاج بس یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور S&GAD کو فوج کے ملٹری سیکرٹری برانچ کی طرز پر چلایا جائے اور سرکاری افسران کے کیرئیر کے حوالے سے کسی بھی سفارش یا دبائو کو نہ مانا جائے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ملٹری سیکرٹری برانچ بنا دیا جاتا ہے تو سول سروس بھی کام کرنے لگے گی جس سے گورننس بہتر ہو گی، پالیسیاں بہتر بنیں گی، لوگوں کے مسائل حل ہوں گے اور ہر کام کے لئے فوج کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ