دین اور سیاست کی یکجائی کا اسلامی تصوّر : تحریر الطاف حسن قریشی


علامہ اقبال نے خطبے میں فرمایا کہ سرزمینِ مغرب میں عیسائیت کا وجود محض ایک رہبانی نظام کی حیثیت رکھتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس پر کلیسا کی ایک وسیع حکومت قائم ہوئی۔ لوتھر کا احتجاج اس کلیسائی حکومت کے خلاف تھا۔ اس نے کسی دنیوی نظامِ سیاست پر کوئی بحث نہیں کی تھی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ خود لوتھر کو بھی اِس امر کا احساس نہیں تھا کہ اِس کا بالآخر نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک عالمگیر اخلاقی نظام کے بجائے مغرب میں بیشمار ایسے اخلاقی نظام پیدا ہو جائیں گے جو خاص خاص قوموں سے متعلق ہوں گے اور ان کا حلقہ اثر بالکل محدود ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ جس ذہنی تحریک کا آغاز لوتھر کی ذات سے ہوا، اس نے مسیحی دنیا کی وحدت کو توڑ کر اسے ایک غیرمربوط اور منتشر کثرت میں تبدیل کر دیا اور اہلِ مغرب کی نگاہیں اقوام اور حلقوں کی تنگ حدود میں الجھ گئیں۔ اِس نئے تصورِ حیات میں رنگ بھرنے کیلئے وطن کے تصور کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا اظہار بالآخر ان سیاسی نظاموں کی شکل میں ہوا جنہوں نے جذبہ قومیت کے تحت پرورش پائی۔ ظاہر ہے کہ اگر مذہب کا تصور یہی ہے کہ اِس کا تعلق صرف آخرت سے ہے اور اِنسان کی دنیوی زندگی سے اِس کا کوئی سروکار نہیں، تو اِس سے حضرت عیسی کا عالم گیر اخلاقی انقلاب اپنی افادیت کھو بیٹھا اور اس کی جگہ قومی اور وطنی نظاموں نے لے لی ہے۔ اِس سے اہلِ مغرب بجا طور پر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذہب کا معاملہ صرف اپنی ذات تک محدود ہے اور اِس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔علامہ اقبال کے خطبے کا آٹھواں خیال افروز نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک ذاتِ انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ روح اور مادے کی ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رو سے اللہ، کائنات اور اِنسان ریاست روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اِسے روحانی دنیا کی خاطر ترک کر دینا چاہئے جو کسی دوسری جگہ واقع ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغرب نے روح اور مادے کی علیحدگی کا عقیدہ کسی غوروفکر کے بغیر قبول کر لیا تھا اور اب وہ پچھتا رہے ہیں، مگر سیاست دانوں کا ایک طبقہ آج بھی مصر ہے کہ دنیا اِس نظریے کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت کے طور پر تسلیم کرے۔ دراصل یہ روحانی اور دنیوی زندگی کا وہ اِمتیاز ہے جس سے مغرب کے مذہبی اور سیاسی افکار متاثر ہوئے ہیں اور ان پر انسانی جذبوں کے بجائے قومی اغراض کی حکمرانی ہے۔ اب یورپ متحد ہونے کیلئے غیرفطری طریقے اختیار کر رہا ہے۔علامہ اقبال کے خطبے کا نواں ایقان افروز نکتہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں کسی لوتھر کا تصور ممکن نہیں، کیونکہ اسلام کے اندر کلیسا کا کوئی ایسا نظام سرے سے موجود ہی نہیں جسے ازمنہ وسطی کے مسیحی نظام کی طرح توڑنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالمگیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی پر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے فقہا کا عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ عہدِ جدید کے تقاضوں سے یکسر بیگانہ ہیں، لہذا اِس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اِس میں ازسرِنو قوت پیدا کرنے کیلئے اِس کی ترکیب و تعمیر کی طرف متوجہ ہوں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ بالآخر تصورِ قومیت کا انجام عالمِ اسلامیہ میں کیاہو گا۔ کچھ روز ہوئے پروفیسر آرنٹ جان نے مجھے لیڈن (ہالینڈ) سے ایک خط میں لکھا:یوں لگتا ہے کہ اِس وقت اسلام اس نازک دور سے گزر رہا ہے جس سے مسیحیت ایک سوسال پہلے سے زیادہ کا عرصہ ہوا گزر چکی ہے۔ اِس وقت سب سے مشکل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ بہت سے فرسودہ تصورات ترک کر دینے کے باوجود مذہب کو اِنتشار سے محفوظ رکھنے کی صورت کیا ہو سکتی ہے۔ میرے لئییہ بتانا مشکل ہے کہ اِس کا نتیجہ مسیحیت کے حق میں کیا نکلے گا اور اِسلام کے متعلق پیش گوئی کرنا تو اور بھی ناممکن ہے۔اِس خط کا حوالہ دینے کے بعد علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں یہ دسواں حقیقت افروز نکتہ بیان کیا کہ اِس وقت قوم اور وطن کے تصور نے مسلمانوں کی نگاہوں کو نسل اور خون کے امتیاز میں الجھا دیا ہے، مگر آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کیلئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جسے یقین ہے کہ اسلام ایک زندہ اور فعال قوت ہے جو اِنسانی ذہن کو جغرافیائی حدود و قیود سے رہائی دلا سکتی ہے۔ اس شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو رِیاست کے معاملات میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور اِسلام کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ اسے کسی دوسری تقدیر کی ضرورت نہیں۔ڈاکٹر محمد اقبال نے اِس طویل بحث کے بعد یہ گیارہواں اصول بیان کیا کہ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں کی ترمیم اور تاویل کرے، لیکن اِس قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ اِس کے نتائج کیا ہوں گے۔ میرے اِس اندازِ بیان سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے کہ جن حضرات کو میرے خیالات سے اتفاق نہیں، میں ان سے برسرِپیکار ہونے کا دروازہ کھولنا چاہتا ہوں۔ یہ اجتماع مسلمانوں کا ہے جن کے متعلق مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے مقاصد اور اِس کی تعلیمات پر قائم رہنے کے دل سے آرزومند ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی بصیرت کے مطابق آپ کی سیاسی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے منور کر سکوں اور یہ روشنی بستیوں میں پھیلتی چلی جائے۔خطبہ الہ آباد کا بارھواں نکتہ یہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں۔ ان کا اتحاد اِن تمام جماعتوں کی نفی کے بجائے اِس امر کا صحیح تقاضا کرتا ہے کہ ہم حقائق کا اعتراف کریں خواہ وہ کتنے ہی ناخوشگوار ہوں۔ حصولِ مقصد کی عملی راہ پر چلنے کا یہ طریقہ نہیں کہ ایک ایسی حالت فرض کر لی جائے جو سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ ہمارا طریقِ کار یہ ہونا چاہئے کہ واقعات کو جھٹلانے کے بجائے اِن سے حتی الامکان فائدہ اٹھائیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ