مجھے اگر موٹر سائیکل اور کار میں انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں اپنے لئے کار پسند کروں گا اس لئے کہ کار میں پچھلی نشستوں کے علاوہ اگلی نشست پر بھی کسی کو لفٹ دینے کی سہولت موجود ہے جو موٹرسائیکل میں نہیں۔ اسی طرح کار میں ٹیک لگانے کا معقول انتظام ہوتا ہے جس کے باعث ڈرائیور کو تھکن کم ہوتی ہے جبکہ موٹرسائیکل سواروں کو ٹیک لگانے کیلئے پیچھے کسی موٹے آدمی کو بٹھانا پڑتا ہے جس کی توند سے ٹیک لگائی جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ٹیک اتنی آرام دہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ موٹا آدمی مسلسل سانس لیتا رہتا ہے چنانچہ توند کی اس مسلسل ’’ہل جل‘‘ کے باعث ٹیک لگانے والا حادثے کے خطرے سے دو چار رہتا ہے یوں آرام دہ چھوڑ اس ٹیک کو محفوظ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔اسی طرح مجھے اگر کار اور رکشے میں سے انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں اپنے لئے رکشے کا انتخاب کروں گا کیونکہ کار پاس سے بھی گزر جائے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی جبکہ سائیلنسر اترا ہوا رکشہ ایک میل دور سے اپنی آمد کی خبر دیتا ہے اور ’’ہٹو بچو‘‘ کے شور کے درمیان جب یہ سواری گزارتی ہے تو گلیاں سُنجی ہو جاتی ہیں اور یہ مرزا یار اس میں دندناتا پھرتا ہے۔ رکشے کو کار پہ ترجیح دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر چہ یہ تین پہیوں والی سواری ہے تاہم اسے گنجان سے گنجان ٹریفک میں بھی اگر صرف اگلا پہیہ گزارنے کی جگہ مل جائے تو باقی یہ خود بنالیتی ہے۔ یہ وہ عقاب ہے جو عین سامنے سے آنے والی ٹریفک یعنی تندی باد مخالف سے نہیں گھبراتا بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اسے اونچا اڑانےکیلئے چل رہی ہے۔
لیکن اگر میرے سامنے رکشے اور ریڑھے میں چوائس کا مسئلہ درپیش ہو تو میں اپنے لئے بہرحال ریڑھے کا انتخاب کروں گا کیونکہ باقی تمام سواریاں یا ٹریفک کے قوانین کی زد میں یا ریڑھے کی زد میں آتی ہیں جبکہ ٹریفک سگنل لال سرخ بھی ہو رہا ہو تو بھی ریڑھے والا صرف اپنا چھانٹا فضا میں بلند کرکے اسے کراس کر سکتا ہے۔ اسی طرح اس پر سریا کچھ اس طرح لادا جاسکتا ہے کہ اس کا نکیلا حصہ ریڑھے سے آٹھ دس فٹ باہر اور اس کا رخ پیچھے آنے والے سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کی طرف یوں ہوتا ہے جیسے ان سب کو ہینڈز اپ کررہا ہو۔ ریڑھے پر کھڑا شخص دوسرے سواروں کی نسبت زیادہ باخبر بھی ہوتا ہے کیونکہ اسے صرف یہی خبر نہیں ہوتی کہ مکانوں کے باہر کیا ہو رہا ہے بلکہ وہ کھڑا ہونے کی صورت میں یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ مکانوں کے اندر کیا ہو رہا ہے۔تاہم ریڑھے اور بس میں میری نگاہ انتخاب بہرحال بس پر پڑے گی کیونکہ اس کے ہاتھوں میں نے بڑے بڑوں کو بے بس ہوتے دیکھا ہے اس کا انتظار تو وہ بھی کرتے ہیں جن کی شہرت شاعری میں خود انتظار کرانے کی ہے۔ بس میں ڈرائیور کے علاوہ کنڈکٹر بھی ہوتا ہے… اور یہ دونوں اکثر صاحب کرامات ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب کسی حادثے کی صورت میں بس کے تمام مسافر ہلاک ہو جاتے ہیں تو ڈرائیور اور کنڈکٹر کے بارے میں خبر چھپتی ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بس کو ریڑھے پر ترجیح دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ریڑھا صرف ایک گھوڑے سے چلتا ہے جبکہ بس کئی ہارس پاور کی مالک ہوتی ہے اور اتنے گھوڑوں کے باوجود یہ سڑک پر نہ پانی کھڑا کرتی ہے اور نہ اس کی وجہ سے صفائی کے دوسرے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ڈیزل کی بھینی بھینی خوشبو سے فضا معطر کرتی چلی جاتی ہے۔
لیکن اگر مجھے بس اور ویگن میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنے کا موقع دیا جائے تو میرا ووٹ ویگن کے حق میں ہوگا کیونکہ جو کار ہائے نمایاں ویگن انجام دیتی ہے بس میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ دیکھنے میں بس ویگن سے کئی گنا بڑی ہوتی ہے لیکن اس میں بس سے زیادہ سواریاں سما جاتی ہیں۔ نیز اخوت ، محبت اور بھائی چارے کی جو فضا ویگن میں نظر آتی ہے اسے مثالی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ دوسری سواریوں میں مسافر زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے شانہ بشانہ ہو کر بیٹھتے ہیں جبکہ ویگن میں وہ ایک دوسرے کی ٹانگوں میں ٹانگیں اور گردنوں میں گردنیں پھنسا کر بیٹھتے ہیں۔ ویگن وہ سواری ہے جو غرور بلکہ مغرور کا سر نیچا اور کولہے اوپر کرتی ہے۔ چنانچہ وہ ویگن میں داخل ہوتے ہیں تو بکری بن جاتے ہیں اور آدھ پون گھنٹے کا سفر اسی آسن میں طے کرتے ہیں، مگر صاحب اللہ کو جان دینی ہے یہ بسیں، کاریں، موٹر سائیکل، ویگن، رکشے اور دوسری تمام قیمتی سواریاں ایک طرف اور وہ بچارا پرولتاری سائیکل ایک طرف جو نہ پٹرول مانگتا ہے، نہ ڈیزل مانگتا ہے، نہ قیمتی پرزے مانگتا ہے، مانگتا ہے تو صرف ایک جوانمرد سا سوار مانگتا ہے جو ٹانگیں چلانا جانتا ہو، سو اگر عزت سادات خطرے میں نہ پڑتی ہو تو میں باقی تمام سواریوں کو خیر باد کہوں اور اسی کو اپنا جیون ساتھی بنائوں۔ البتہ چھوٹی سی قباحت اس سواری میں موجود ہے، وہ یہ کہ چلتے چلتے اس کے کتےفیل ہو جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود اس کا دم غنیمت ہے بلکہ اس بے جان چیز کو تو کچھ اشرف المخلوقات پر بھی فضلیت حاصل ہے کیونکہ سائیسکل کے کتے فیل ہوں تو یہ اپنی ناکامی تسلیم کرلیتی ہے کیونکہ یہ غیر سیاسی سواری ہے جبکہ میرے اردگرد ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے ’’کتے‘‘ فیل بھی ہوجائیں تو وہ انہیں پاس قرار دے کر ایک بار پھر وکٹری سٹینڈ پر کھڑا کردیتے ہیں۔