22 کروڑ مفلوک الحال ہیں۔ ان کے خرچے بڑھ رہے ہیں۔ رات دن محنت کے باوجود آمدنی اخراجات پورے نہیں کررہی۔ مگر وہ ہم دانشوروں کی طرح مایوس نہیں ہیں۔ ہمت نہیں ہاری ہے اور اللہ تعالی بھی اپنی رحمتیں اور برکتیں اسی طرح نازل کررہا ہے۔
اکیسویں صدی میں برسوں کی جدو جہد کے بعد کسی بھی ملک میں کسی قسم کے بحران کا حل انتخابات کا انعقاد ہی سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت میں تو کسی وقت بھی الیکشن ہوسکتے ہیں۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اس ملک میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں نئے سرے سے میدان میں اترتی ہیں۔ عہدیدار کارکن عوام سے رابطے کیلئے عزم کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ ملکی آئینی، انتظامی،اقتصادی حالات دیکھ کر تعلیم و تدریس، زراعت، تجارت، مواصلات اور دیگر شعبوں میں ترقی کی رفتار کا عالمی رفتار سے موازنہ کرکے نئے انتخابی منشور مرتب کئے جاتے ہیں۔ اس قوم کے ایک ایک فرد کو امید نہیں یقین ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کے نتیجے میں جس سیاسی جماعت کو مینڈیٹ دیا جائے گا وہ عوام کی طاقت اور قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ملک کو پھر ترقی کی راہ پر ڈال دے گی۔
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ واہگہ سے گوادر تک کہیں کوئی ایسی امید نظر آرہی ہے۔ بہت زیادہ مایوسی ہے۔ پاکستانی قلم کار، ٹیچر، صحافی نورمحمد جمالی کوئٹہ میں کرنٹ لگنے سے انتقال کرگئے۔ کتنے خواب بکھر گئے۔ نور محمد جمالی اور بابرک کارمل جمالی دونوں بلوچستان کے مسائل پر کھل کر بات کرتے تھے۔ دونوں کی آوازوں اور الفاظ میں ایک یقین محکم تھا۔ اب یہ شمع بابرک جمالی کو اکیلے روشن رکھنا ہوگی۔ صحافت ادب اور خاص طور پر بچوں کے ادب کیلئے نور محمد جمالی کی خدمات سے پاکستان کے سبھی اہل قلم با خبر ہیں۔ اللہ تعالی درجات بلند کرے ۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
ہم اللہ کی طرف سے سب کچھ ہونے کے باوجود بیزار ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب قریبی بستیوں کے محنت کشوں کو اپنے اوزار سنبھالے چورنگی کی طرف جاتا دیکھتے ہیں ۔ صبح سویرے جب ماسیاں گھروں میں کام کرنے کیلئے ہماری ہری بھری گلی سے گزرتی ہیں۔ وہ معاشی طور پر ہم سے کہیں زیادہ بد حال ہیں۔ مالک مکان ہر دو تین مہینے بعد کرایہ بڑھادیتے ہیں۔ پھر ان ماؤں بہنوں بیٹیوں کو ایک دو گھروں میں مزیدکام لینا پڑتا ہے۔ یہ اپنے بچوں بچیوں کو اسکولوں میں پڑھا بھی رہی ہیں ۔ بچے اسکول وینوں میں اسی طرح مسکراتے چہروں کے ساتھ علم کی پیاس بجھانے نکل رہے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔نیم کے پیڑ ٹھنڈی میٹھی چھاؤں دے رہے ہیں۔ ہریالی ہے۔ بادل ہیں۔ ہر چیز پر قادر اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے دروازے بند نہیں کئے ہیں۔
اقبال پوچھ رہے ہیں آئی ایم ایف کے بتوں سے امیدیں۔ مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے۔ ہمارے پیدا کرنے والے نے۔ ہمارے رزق کا وعدہ کرنے والے نے ہماری خوشحالی، ہماری خوراک، ہمارا پانی،ہماری روشنی ہمیں عطا کرنے سے انکار نہیں کیا ہے۔ وہ تو ہمیں روز صبح دن کا اجالا بھی دے رہا ہے۔ رات کا آرام بھی۔ میٹھا پانی بھی پینے کو دے رہا ہے۔ اس نے تو نہیں کہا کہ اب وہ کھیتوں میں فصلیں نہیں اگنے دے گا۔ اس نے تو ریکوڈک سے سونا تانبا نکالنے پر پابندی نہیں لگائی۔ اس کے کرم کے دریا تو جاری ہیں۔ اس کے رحم کی ندیاں تو اسی طرح اچھل رہی ہیں۔
یہ کون سی طاقتیں ہیں۔ جو اس رحیم وکریم کی رحمتوں اور برکتوں کے راستے میں حائل ہورہی ہیں۔ اب بھی لوگوں کے گھروں سے جو اربوں پاکستانی روپے، ڈالر نکل رہے ہیں۔ وہ کہاں جارہے ہیں۔ ہمارے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر چند ماہ کیلئے بھی کافی نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، حکمرانوں کے زر مبادلہ کے ذخائر تو ان کی کئی کئی پشتوں تک کیلئے کافی ہیں۔ یہ بڑے لوگ اول تو مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں رکھتے۔ ہوں بھی تو اس لئے کہ ان کے نفع میں نقصان ہورہا ہے۔ مگر ان کیلئے ہر شہر میں بڑے کلب موجود ہیں۔ وہاں یہ دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ مگر یہ تو زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ ہوں گے۔ باقی 22کروڑ ۔ ان کو مایوسی اس لئے نہیں ہوتی کہ ان کے پاس مایوس ہونے کیلئے وقت ہی نہیں ہے۔ 24گھنٹے کام کررہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے ضروری اخراجات بھی ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہوتے جارہے ہیں ۔ عام لوگ کس کلب میں جائیں۔ انہیں سستا کھانا، اچھا ماحول کہاں مل سکتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں سبھی سہولتیں اسی طبقے کے لئے رکھی ہیں جو پہلے سے بہت آسودہ ہے۔
عام لوگ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ ان کا ہر لمحہ صرف اور صرف رزق حلال کے حصول میں گزرتا ہے۔ تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ ہر نسل کو اپنے صبراور جدو جہد کا اجر ضرور ملتا ہے ۔22کروڑ باشعور بھی ہیں۔ بجلی کے بلوں میں ظلم اور جبر کے خلاف وہ شہر در شہر نکلے ہیں۔ بہرہ ور اگر چہ بہت طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ تعداد میں بہت کم ہیں۔ بے بہرہ گنتی میں بڑھتے جارہے ہیں۔ گھروں سے اربوں روپے نقد برآمد ہونے کی خبریں بہت خطرناک ہیں۔ ہر شہر میں آبادی کی صورت کچھ اسطرح ہے کہ ہر امیر بستی کے ساتھ غریبوں کی کچی آبادیاں ہیں یہیں سے امرا رؤسا اور متوسط طبقے کو گھریلو خدمت کیلئے نفری مہیا ہوتی ہے۔ یہ غربا۔ امرا کے گھروں کی امارت، دولت، خوشحالی سے واقف ہیں۔ غریبوں سے ان کی امیدیں نہ چھینیں۔ ان کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسے سبسڈی کہیں، رعائتی نرخ کہیں، یہ مملکت کا فریضہ ہے۔ اسے آئی ایم ایف سے معاہدے سے مشروط کرکے ریاست عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ عوام کی خوراک روزگار کا حق پورا کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے عوام کے مینڈیٹ سے وجود میں آنے والی حکومت کی موجودگی لازمی ہے۔
وہ عوام کی بے پایاں حمایت سے اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ناجائز دولت بحق سرکار ضبط کرکے ملک کو استحکام کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ورنہ ہمارے ہاں2022-1977- 1971-1964-1958 کی مثالیں ہیں۔ جب جب انتخابات سے گزیر کیا گیا ۔ انتخابی نتائج پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ تو رحمتیں ہم سے روٹھتی رہیں۔ برکتیں اٹھتی رہیں۔ ملک سے بیزاری۔ نفرت دور کرنے کیلئے لئے ضروری ہے ریاست انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے اور 22 کروڑ جو تاریخ کی سب سے بڑی بد حالی کا سامنا کررہے ہیں وہ اس اتوار کو محلے کی سطح پر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ وہ ووٹ اپنوں میں سے کسی کو دیں گے، کسی جاگیردار، زمیندار، سرمایہ دار، ٹھیکیدار کو نہیں دیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ