دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں گھرکی بربادی کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمے دار ہے۔
صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔
حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کرگیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔
اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکما بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔
وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔
اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
مختلف ادارے سروے کروارہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہوگی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمے داری بھی اس کی ہو گی۔
لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہوگئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔
کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنادیا، کسی معمر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگادیا۔ کسی مصور کی تصویر دل کو بھاگئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔
انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھااور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔
جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔
آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔
ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں، بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو، آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟
اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔
آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو ان کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقینا کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔
پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جا یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں۔ اسی نوعیت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کرلیتا ہوں آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پکار پر دل و جان سے لبیک کہیں۔
گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔
اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللے تللے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔
ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیا کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اٹھے اور صرف ملک کی بقا اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔
اس کے بعد یہ تمام لوگ قائد کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریںاور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کردے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس