1978 کا برس تھا۔ آئزک بیشواس سنگر کو ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ درویش ان دنوں پنجاب کے ایک قدامت پسند، نیم خواندہ قصبے میں ایسی نوجوانی سے گزر رہا تھا جیسے آج کل کچھ پرجوش نوجوان سلاخوں کے پار محبوس ہیں۔ منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں اس آمادہ بہ جستجو کیفیت کو ایک جملے میں سمو دیا ہے جو اب خلوص دل سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اس وقت اپنے اس جوش کے رخ کا بھی صحیح علم نہیں تھا۔ اردو اخبارات میں ادھر ادھر کچھ بے ربط خبروں سے صرف اتنا جان سکے کہ پولینڈ سے کئی دہائیاں پہلے امریکا ہجرت کرنے والے ایک یہودی کو ادب کا سب سے بڑا انعام ملا ہے۔ اس گمنام ادیب کو اتنا بڑا انعام ملنا یقینا امریکی لابی کی سازش ہے۔ آج کی طرح ان دنوں بھی ہمارے بیشتر صحافی دیوارِ گلستاں پر لام الف ہی لکھتے تھے۔ ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ اس وقت ہمارے ملک پر قابض حکمران ایک عشرہ قبل اردن میں ہزاروں فلسطینی مہاجروں کا قاتل تھا۔ مقدرات کی تقسیم میں ہماری نسل کا حصہ بھی خوب رہا۔ ایوب آمریت میں آنکھ کھولی۔ مکتب میں داخل ہوئے تو یحیی خان کی نگہ نیم باز دراز دستی کا چرچا تھا۔ کالج اور یونیورسٹی کے دن ضیا استبداد میں کٹ گئے۔ موہان کے حسرت نے قید میں ماہ رمضان کاٹا تھا، ہم نے شباب کا تاوان دیا۔ ایسے بھی تھے کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات… دھوپ چھاؤں کے اس کھیل میں جیسے تیسے تعلیمی مراحل مکمل ہوئے۔ ادب کی چیٹک تھی اور اپنی کوتاہ قدمی پر نظر۔ ترجمہ نگاری سے آغاز سفر کا فیصلہ ہوا۔ ادارہ جنگ میں مظفر محمد علی اشاعت کتب کا شعبہ دیکھتے تھے۔ ان کی تحریک پر نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے افسانے اٹھا لئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اس جسارت پر جھرجھری سی آتی ہے۔ اسی مہم میں آئزک بیشواس سنگر کا افسانہ مارکیٹ سٹریٹ کا اسپائی نوزا پڑھا۔ ایک کرم کتابی بڈھے فلسفی کی کہانی ہے جو آخری عمر میں ایک ادھیڑ عمر کنواری خاتون سے بیاہ کر لیتا ہے۔ علم کی بے پروبالی اور لہو کی ناقابل مزاحمت گرم جوشی کی لطیف کہانی ہے۔ شب زفاف کی صبح بوڑھا فلسفی کھڑکی کھول کر آسمان پر ڈوبتے ابھرتے ستاروں کا کھیل دیکھتے ہوئے بڑبڑاتا ہے، مقدس اسپائی نوزا، مجھے معاف کر دو۔ میں بے وقوف بن چکا ہوں۔ سنگر کے افسانے کا کردار اپنے علم کی شکست پر آزردہ ہوا تھا۔ ہم ایسے علم کا دعوی ہی نہیں رکھتے، اس لیے بزدلی کی تہمت جیب کفن کی زینت کی ہے۔
بزدلی اور بہادری کی نفسیات دلچسپ ہے۔ کہیں بہادری حماقت کی سرحد پار کر جاتی ہے تو کہیں بزدلی ندامت کا جواز ٹھہرتی ہے۔ ہم نے جنگل سے نکل کر شہر کا رخ کیا تو جسمانی طاقت اپنے جواز برتری سے محروم ہو گئی۔ تمدن کی دنیا میں بہادری کردار کی استقامت سے متعین ہوتی ہے۔ قدیم دنیا کو جدید عہد سے جدا کرنے والی لکیر شہری اور ریاست میں ایک معاہدے سے مرتب ہوتی ہے جسے آئین کہا جاتا ہے۔ ہم رومی سلطنت کے باشندے نہیں کہ بند پنجرے میں بھوکے درندوں اور بے بس غلاموں میں لڑائی سے لطف اٹھائیں۔ ہماری دنیا قانون اور ضابطے کی پابند ہے۔ یہ قانون او ر ضابطے دستور کی اعلی ترین دستاویز کے تابع ہیں۔ دستور پر نظر ڈالیں تو اس میں کچھ اداروں اور عہدوں میں اختیار اور جواب دہی کے قاعدے درج ہیں لیکن دستور کی روح ان حقوق کی ضمانت میں درج ہے جو ایک عام شہری کو ریاستی اختیار کے سامنے طاقت عطا کرتی ہے۔ شہری اسی دستور کے مورچے میں کردار کی مضبوطی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ دستور کی شہر پناہ میں رخنے نمودار ہو جائیں تو شہری کی ڈھال زمین پر جا گرتی ہے اور تلوار ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ مزید کیا عرض کی جائے کہ آپ ملک عزیز میں دستور کے وقار اور بے وقعتی کے پیچ و خم بہتر سمجھتے ہیں۔
پہلی دستور ساز اسمبلی نے 1954 میں دستور کا جو مسودہ تیار کیا تھا اسے غلام محمد کے سازشی ٹولے نے آنکھ کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ سکندر مرزا نے مارچ 1956 میں جس دستور کو اپنے دستخط سے سرفراز کیا تھا اسے خود ہی لغویات کا پلندا قرار دے دیا۔ ایوب خان نے قوم کو بقلم خود جو دستور عطا کیا تھا اسے ہری پور کے موضع ریحانہ جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ ایک دستور یحیی خان نے بھی لکھوایا تھا جو بحیرہ بنگال میں ڈوب گیا۔ پچاس برس پہلے 1973 میں بچے کھچے پاکستان کے سیاسی قائدین نے جو دستور منظور کیا تھا اس پر غیر جمہوری تیر و تفنگ کے ان گنت زخم ہیں۔ یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی کہ جسٹس یعقوب علی خان نے دستور کو منسوخ کرنے کی بجائے معرض تعطل میں ڈالنے کا جو مشورہ دیا تھا، وہ صائب تھا یا نہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ طاقت کی اس نگہ نیم باز سے پاکستان کا شہری محاصرے میں آ گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد نے 12 اکتوبر 99 کی شام ایک منتخب وزیراعظم سے کہا تھا کہ آئین اور قانون کیا ہوتا ہے، یہ ہم آپ کو بتائیں گے۔ یہ سانحہ 24 برس پہلے رونما ہوا تھا۔ آج ہم 2023 کی خزاں سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کا کہیں نام و نشان نہیں۔ سیاسی شعور کی بنیادیں کھد چکیں۔ زنجیر عدل کی کڑیاں خاک آلود ہیں۔ انتظامی ڈھانچہ زیر و زبر ہو چکا۔ عوام کو روٹیوں کے لالے پڑے ہیں لیکن اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ معیشت کا شعور معدوم ہے۔ معیشت تو ایک پیچیدہ علم ہے، ہم سادہ شعور تناسب سے بھی محروم ہو چکے۔ اس منظر نے کئی سوال اٹھائے ہیں۔ سوال اٹھانا بہادری کی اعلی ترین سطح ہے لیکن آپ کے نیاز مند نے بزدلی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرے فیصلے کا جواز سترہویں صدی کے فارسی شاعر صائب اصفہانی نے بہت پہلے دے رکھا ہے۔
آسماں از سپر انداختگان است اینجا
در چنیں معرکہ ای تیغ شجاعت چہ کند
(یہاں تو آسمان بھی ہتھیار ڈالنے والوں میں شامل ہو چکا ہے۔ بھلا ایسی جنگ میں شجاعت کی تلوار کس کام آئے گی؟)
بشکریہ روزنامہ جنگ