عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو یہ ورد کرتے رہے کہ ملک معاشی طور پر ان کی توقع سے زیادہ تباہ ہے۔شہبازشریف کی قیادت میں زرداری، مولانا، خالد مقبول، اختر مینگل اور دیگر نے مل کر حکومت سنبھالی تو یہی دہائی دیتے رہے کہ ملک کو پی ٹی آئی نے جس طرح تباہ کررکھا ہے، وہ ان کے خدشات سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ وہ کہتے رہے کہ انہوں نے ریاست کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دی۔لیکن اب نگران آگئے ہیں تو وہ بھی یہی فریاد کررہے ہیں کہ معیشت ہی نہیں بلکہ آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آرہی کہ اصلاح کا آغاز کریں تو کہاں سے کریں۔ جرنیلوں اور سیاستدانوں کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن اس ملک کو ناقابل اصلاح بنانے میں بڑا کردار بیوروکریسی، عدلیہ اور مافیاز کا ہے جن کا ذکر نہیں ہورہا تاہم یہاں پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان سب کو کس نے خراب کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں نے ۔ یہ لوگ ہوشیار ہیں اور بدرجہ اتم ہوشیار ہیں لیکن افسوس کہ ملک کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنا جو ”سسٹم“ بنا رکھا ہے یہ کیا معمولی اذہان کا کام ہے؟ ”سسٹم“ بنانے کی بجائے اگر وہ یہ صلاحیت اور قابلیت سندھ کے عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرتے تو کیا آج سندھ جنت نہ ہوتا؟۔ جو بڑے سیدھے سادے اور پاک بنے پھرتے تھے، وہ عمران خان کتنے چالاک نکلے۔ کتنی لابیوں سے ملے ہوئے تھے۔ کس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے ۔ کس طرح جھوٹے بیانئے گھڑتے اور لوگوں کے اذہان میں بٹھاتے رہے ۔کس طرح اپنے ایک ایک محسن کو لتاڑا اور کس طرح ایک ایک مافیا کو نوازا ۔ مغربی طاقتوں کی اس طرح خدمت کی کہ اپنے عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو ان کا مخالف بناکے رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دیکھ لیجئے۔ ڈیڑھ سال حکومت کی ۔ اپنے کیسز ختم کرائے۔ حکومت سے رخصت ہوتے ہوئے بھی بیوروکریسی کو قابو میں رکھنے کیلئے نگران سیٹ اپ اور بیورکریسی میں اپنے بندے چھوڑے کہ وہ بعد میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔ محترم مولانا صاحب کو دیکھ لیجئے ۔ مرکز میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ لیا۔ خیبر پختونخوا پر نگران کے نام پر سوا سال حکومت کی اور حقیقت یہ ہے کہ سوا سال میں پانچ سال کا کام نکال ڈالا۔ باہر بڑے انقلابی اور جمہوریت پسند بنے پھرتے ہیں لیکن اندر سے گزشتہ چار سال (مسلم لیگ، پی پی پی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی) کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا بننے کا مقابلہ جاری رہا۔ عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سپورٹ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا لیکن ہدف سویلین بالادستی نہیں بلکہ یہی تھا کہ مجھے ماضی کی طرح دوبارہ گود لے کر اقتدار دلوادے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جے یوآئی کے درمیان بھی یہ میچ زوروں پر رہا کہ کون زیادہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے ۔ بظاہرانقلابی نظرآنے والے قوم پرست بھی کچھ کم نہیں لیکن درپردہ ان کا کردار باپ پارٹی جیسا ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے چینل سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہ کر چہیتا بننے کی کوشش کرتا ہے تاہم عوام کے سامنے یا میڈیا میں ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے سویلین بالادستی کے اصل چیمپئن وہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو ملک کو معاشی اور معاشرتی حوالوں سے تباہ کرنے میں جرنیلوں اور ڈکٹیٹروں کا حصہ سیاستدانوں سے زیادہ ہے جبکہ ملک کو حالیہ تباہی سے دوچار کرنے والی سونامی کا پروجیکٹ بھی جرنیلوں نے شروع کیا تھا جس کی ملک کے ساتھ ساتھ اب خود ان جرنیلوں کے وارث بھی بھاری قیمت چکارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی رہنما بھی رہنما کہلانے کے حقدار نہیں رہے ۔ سب نے اپنی اپنی باری گزار دی اور اب عوام کو بھاری بجلی بلوں، مہنگائی، دہشت گردی اور نگران حکومت کے سپرد کرکے ہر ایک اگلی مرتبہ اپنی باری کو یقینی بنانے میں لگ گیا ہے۔ بلکہ اگلی باری کی تیاری کیلئے چھٹیوں پر چلے گئے ہیں۔ ادھر بجلی کے اور مہنگائی کی وجہ سے عوام سڑکوں پر ہیں۔ ادھر نگران حکمران سرجوڑ کے بیٹھے ہیں کہ کریں تو کیا کریں لیکن کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی منصوبہ عمل اور نہ اس کی فکر ہے۔ اس لئے آرمی چیف بڑے سیٹھوں سے ملاقاتیں کرکے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ یہی سیٹھ ہر سیاسی اور فوجی حکمران کو اپنے دام میں لاکر اپنی معیشت کو مضبوط اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرچکے ہیں اور اب بھی ہمہ وقت ہر حکمران اور بیوروکریٹ کو گمراہ کرنے اورکرپٹ بنانے میں مگن رہتے ہیں۔ کل کسی نے پوچھا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن سیاسی قیادت کدھر ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مولانا محترم سوا سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد خدا کا گھر دیکھنے گئے تھے جبکہ ان کے بیٹے اور بھائی خدا کی شان دیکھنے انگلستان گئے تھے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بھی اسحاق ڈار کو ساتھ لے کر انگلستان میں خدا کی شان دیکھ رہے ہیں۔ زرداری صاحب اللہ کے گھر اور اللہ کی شان کے درمیان دبئی میں بیٹھے ہیں اور سندھ میں قائم اپنے ”سسٹم“ کو بچانے کیلئے سرگرداں ہیں جبکہ عمران خان اٹک جیل میں اللہ اللہ کر رہے ہیں۔ قوم پرست جماعتیں بڑی جماعتوں کے ذریعے مستقبل کے سیاسی نقشے میں اپنے آپ کو کسی کونے میں فٹ کرنے کیلئے درپردہ رابطے کررہی ہیں۔ سردست صرف سعد رضوی اور سراج الحق سیاست کررہے ہیں۔ رہے غریب عوام اور ملک تو وہ اللہ، آرمی اور نگرانوں کے سپرد ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ