بجلی کے بل‘ تاجروں کا احتجاج : تحریر مزمل سہروردی


ملک میں بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے احتجاج جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر گھر بجلی قیمتوں سے پریشان ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اضافہ ایک دن میں نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ دس سال سے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔یہ اضا فہ اب ا س حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب عام آدمی کی برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔

بجلی کے بل نے متوسط طبقہ کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ دوبارہ پتھروں کے دور میں کیسے چلا جائے جہاں بجلی کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ عام آدمی اندھیروں میں واپس بھی جانا چاہتا ہے لیکن یہ ظالم سماج اسے جانے نہیں دے رہا۔
نگران حکومت نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا اعلان کیا ہے۔ آپ بحث کر سکتے ہیں کہ یہ ریلیف ناکافی ہے۔ فی الحال اکتوبر میں 300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں تین ہزار روپے تک کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔

اسی طرح 60سے 70ہزار تک بجلی کے بلوں میں 13ہزار روپے کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ نگران حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بجلی کے بلوں میں مزید ریلیف کے لیے آئی ایم ایف سے حکومت کے مذاکرات جاری ہیں۔

میں گھریلو صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافہ کے مکمل خلاف ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل کرتی جا رہی ہیں۔گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمتیں برداشت سے باہر ہو گئی ہیں۔

لوگ سارے گھر سمیت ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ا یک کمرے والے ایک کمرے کا بل دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ بجلی کا بل سب کے لیے ایک مسئلہ بن گیاہے۔

لیکن میں تاجروں کی ہڑتال کے میں حق میں نہیں ہوں۔ تاجروں کو بجلی کے بلوں پر ہڑتال کا کوئی حق نہیں ہے۔ میری رائے میں آج ہم جن معاشی مسائل کا شکار ہیں ان میں تاجر کا بنیادی قصور ہے۔

ہماراتاجر ٹیکس نہیں دیتا۔ کیا ٹیکس نہ دینے والے تاجروں کو ملک میں احتجاج کا حق ہونا چاہیے۔ ہمارا تاجر ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن مہنگی بجلی کے بلوں پر احتجاج کرنے کے لیے تیار ہے۔ رات کو جلدی دکانیں بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن احتجاج کے لیے تیار ہیں ۔

پاکستان اس وقت توانائی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں حکومت نے تجویز دی تھی تاجر رات کو جلدی دکانیں بند کر دیں۔ لیکن ملک کے توانائی بحران پر اس تاجر کو کوئی پرواہ نہیں۔ وہ رات دیر تک دکانیں کھولنے پر بضد رہا۔ ملک میں انتخابات کا موسم ہے اس لیے کوئی بھی سیاسی حکومت ان کی ناراضگی مول لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اس لیے دکانیں رات کو جلدی بند کرانے پر سب ناکام رہے۔ملک توانائی بحران کا شکار ہے۔ ان تاجروں کو سمجھایا گیا کہ اگر آپ دکانیں رات کو جلد بند کر دیں گے تو پاکستان کے اربوں ڈالر بچ جائیں گے۔

لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں۔ اسے اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی کتنی اہمیت ہے۔ اگر صرف دکانیں جلدی بند کرنے سے پاکستان کے معاشی مسائل میں کمی ممکن ہوتی ہے لیکن یہ تاجر ایسا نہیں سوچتا۔ یہ صرف اپنے مفاد کا ہے۔ اس کو اپنے منافع کی فکر ہے۔

میری تو حکومت کو تجویز ہے کہ اب تاجروں نے جب مہنگی بجلی کے بلوں پر احتجاج کے چکر میں دکانیں بند کرنے کا سلسلہ شروع کر ہی دیا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ صرف ان تاجروں کو دکانیں کھولنے کی اجازت دے جو ٹیکس فائلر ہیں۔جو ٹیکس فائلر نہیں ہیں ان کو دکانیں کھولنے کی ویسے ہی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جو فائلر نہیں ہے اس کو پاکستان میں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جو فائلر نہیں اسے بجلی کا بل زیادہ کیسے آگیا۔ جو اس قابل بھی نہیں کہ کاروبار پر ٹیکس دے سکے وہ بجلی زیادہ کیوں استعمال کر رہا ہے۔ جب کاروبار ہی نہیں ہے تو بجلی کا بل زیادہ کیسے۔ جو فائلر نہیں جو صحیح ٹیکس نہیں دے رہا اس کی دکان ویسے ہی نگران حکومت کو سیل کر دینی چاہیے۔

پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دینے پر مجبور ہے۔ اسے تاجر جیسی ٹیکس نہ دینے کی کوئی سہولت حاصل نہیں۔ اس کو ٹیکس کاٹ کر تنخواہ دی جاتی ہے۔

اس لیے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔لیکن دنیا ہمیں سمجھا رہی ہے کہ پاکستان جب تک اپنے ٹیکس کی محصولات میں اضافہ نہیں کرے گا تب تک ہم اپنے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتے۔ جب تک سب ٹیکس نہیں دیں گے پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

ہمیں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھانی ہے۔ لیکن ہم اس میں آج تک ناکام ہیں۔ ہم نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بہت کوشش کی ہے۔ ان کے لیے ٹیکس مراعات کا بھی اعلان کیا ہے۔لیکن تاجر ان مراعات کے باوجود ٹیکس دینے کے لیے تیارنہیں ہوا۔

ہم نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے ان کو ٹیکس کلچر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ناکام رہے۔ ریاست آج تک ان کے سامنے ناکام اور سرنگوں ہی رہی ہے۔ یہ ٹیکس دینے کے لیے پہلے ہی تیار نہیں ہیں اور اب بجلی کے بل دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

سوال یہ ہونا چاہیے کہ جس کو ہزاروں لاکھوں روپے بجلی کا بل آیا ہے اس کی دکان ٹھیک چل رہی ہے، وہ ٹیکس کتنا دیتا ہے۔ جس نے بجلی کے بل پر احتجاج کرنا ہے وہ اپنی ٹیکس ریٹرن سامنے لائے۔ وہ بتائے اس کا کیا کاروبار ہے۔

جب کاروبار ہی نہیں ہے تو بل کیسے آگیا۔ اگر بل آیا ہے تو کاروبار پر ٹیکس ریٹرن کیوں نہیں دیتا۔ نگران حکومت کی تو کوئی سیاسی مجبوریا ں نہیں ہیں۔ انھوں نے تو کسی سے ووٹ نہیں لینا۔ انھیں چاہیے کہ اب ان سب نے جب دکانیں بند کرنے کا سلسلہ شروع کر ہی دیا ہے تو پھر ٹیکس ریٹرن سے پہلے دکانیں کھلنی نہیں چاہیے۔ ان کے آمدن اور اثاثے چیک ہونے چاہیے۔

پہلے ٹیکس دیں پھر دکانیں کھولیں۔ جب یہ ٹیکس دیں گے تو بجلی خود بخود سستی ہو جائے گی۔ انھی کی وجہ سے مہنگی ہے اور یہی مہنگی بجلی پر احتجاج کر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس