افریقہ برائے فروخت (قسط اول) : تحریر وسعت اللہ خان


مغربی افریقہ کے سولہ ممالک معدنی و قدرتی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود نوآبادیاتی اثر و رسوخ، آمریت اور کرپشن کے سبب آزادی کے بعد سے اب تک غربت، بدامنی، کرپشن، دہشت گردی اور قتل وغارت گری کے ہاتھوں پریشان ہیں۔

ان دنوں انھیں ایک اور وبا کا سامنا ہے۔ایک کے بعد ایک ملک میں فوج حکومت کا تختہ الٹتی جا رہی ہے اور اب سے پانچ برس پہلے تک جو مبصرین بغلیں بجا رہے تھے کہ بیشتر افریقہ سن ساٹھ کی دہائی سے مسلط فوجی و خاندانی آمریتوں کے تسلسل سے آزاد ہو رہا ہے اور جمہوری عمل رفتہ رفتہ جڑ پکڑ رہا ہے۔اب وہ مبصرین بھی بغلیں جھانک رہے ہیں۔

چھبیس جولائی کو یورینیم سے مالا مال ملک نائیجر کی فوج نے نیم شفاف انتخابات میں منتخب ہونے والے صدر محمد بازون کا تختہ الٹ دیا۔سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس کے ڈیڑھ ہزار فوجی اس وقت ملک کو القاعدہ کی دہشت گردی سے بچانے کے نام پر نائیجر میں موجود ہیں۔
جب کہ فرانس اور مغربی افریقہ کا علاقائی اتحاد ایکوواس نومنتخب نظربند صدر محمد بازون کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نئی فوجی حکومت بضد ہے کہ فرانس کو ملک سے نکالے گی اور ایکوواس کی جانب سے فوج کشی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرے گی۔کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔جب کہ آدھے ملک پر مذہبی انتہاپسندوں کا کنٹرول ہے۔ یہ مناقشہ نائیجر میں ایک نئے خونی باب کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس سے قبل مالی اور برکینا فاسو میں بھی فوج سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فرانس سے فوجی اڈے ختم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔

جب کہ اگست کے آخر میں تیل کی دولت سے مالامال گیبون میں انیس سو سڑسٹھ سے قائم بونگو خاندان کی شخصی جمہوریت کا انھی کے ایک قریبی نائب نے تختہ الٹ دیا۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ خاندانی لڑائی ہے اور بونگو خاندان اس اشرافیہ کا ان داتا ہے جو آزادی کے بعد سے اس ملک کی دولت آپس میں بانٹ کے کھا رہی ہے۔

افریقی اتحاد کی تنظیم او اے یو، مغربی افریقہ کی اقتصادی یونین ایکو واس سے لے کر یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ تک سب ہی اس رجحان پر تشویش میں ایسے مبتلا ہیں گویا یہ کوئی انہونی ہو۔

گزشتہ دو برس میں نو افریقی ممالک میں فوج ایک بار پھر حکومت سنبھال چکی ہے اور یوں لگ رہا کہ کم از کم مغربی افریقہ کی حد تک جو بھی تھوڑی بہت جمہوریت تھی اس کا ڈبہ تیزی سے گول ہو رہا ہے۔ مغربی افریقہ میں سینیگال واحد ملک ہے جہاں انیس سو تریسٹھ کے بعد سے جمہوری تسلسل برقرار ہے۔

انیس سو نوے سے اب تک مغربی افریقہ کی سابق فرانسیسی نوآبادیات میں بالخصوص فوجی بغاوت کی بائیس کامیاب و ناکام کوششیں ہو چکی ہیں۔

دو امریکی محققین جوناتھن پاول اور کلیٹن تھائین کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انیس سو باون سے اب تک دنیا بھر میں فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی چار سو چھیاسی کوششیں ہوئیں۔ افریقہ میں اس عرصے کے دوران دو سو چودہ میں سے ایک سو چھ کوششیں کامیاب ہوئیں۔

افریقہ کے بعد پچھلے باسٹھ برس میں اگر کوئی دوسرا براعظم اس مرض میں مبتلا رہا ہے تو وہ لاطینی امریکا ہے جہاں ایک سو چھیالیس میں سے چھہتر کوششیں کامیاب ہوئیں۔مگر ان تبدیلیوں کے پیچھے واشنگٹن کا براہِ راست یا بلاواسطہ ہاتھ رہا تاکہ اپنے پچھواڑے میں منرو ڈاکٹرائین ( اٹھارہ سو چھبیس ) کی روشنی میں اپنے اقتصادی و اسٹرٹیجک مفادات کا بلا کسی بیرونی مداخلت تحفظ کیا جا سکے۔

اس کے برعکس افریقہ میں سیاسی عدم استحکام کے ڈانڈے سابق نوآبادیاتی یورپی طاقتوں (بالخصوص، فرانس، برطانیہ، بلجئیم ) کی بندر بانٹ سے جا ملتے ہیں۔یورپی سامراج کو اپنی نوآبادیات پر براہِ راست گرفت تب ڈھیلی کرنا پڑی جب دوسری عالمی جنگ نے یورپ کے معاشی پرزے ڈھیلے کر دیے۔

انیس سو چوہتر تک کوئی افریقی ملک ایسا نہیں تھا جس نے بظاہر سیاسی طور پر آزادی حاصل نہ کر لی ہو۔لیکن کیا واقعی افریقی نوآبادیات حقیقی معنوں میں آزاد ہوئیں ؟

گھانا پہلی افریقی ملک تھا جو انیس سو ستاون میں برطانوی جوئے سے آزاد ہوا۔ گھانا کے وزیرِخارجہ ایلکس کیسون ساکے نے انیس سو اٹھاون میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پہلی بار نیوکولونیل ازم کی اصطلاح استعمال کی۔

گھانا کے صدر کوامے نکروما نے اس اصطلاح کی وضاحت یوں کی کہ ایک ایسی ریاست جو بظاہر خودمختاری کی نصابی تعریف پر پوری اترے مگر بیرونی مفادات اس کی سیاست و اقتصادیات کو کنٹرول کریں۔اسے نیو کلونیل ازم کہتے ہیں ۔

اس تعریف کا پہلا نشانہ آزاد خیال نکروما ہی بنے جب برطانیہ کی تائید سے سی آئی اے نے نکروما کا انیس سو چھیاسٹھ میں تختہ الٹوا دیا۔ زائر ( کانگو ) میں آزادی کے بعد منتخب ہونے والے قوم پرست وزیرِاعظم پیٹرس لوممبا کو جنوری انیس سو اکسٹھ میں قتل کر کے فوجی جرنیل موبوتو کو بلجئیم اور سی آئی اے کی مدد سے بٹھایا گیا۔ شمالی افریقہ میں نہر سویز کو جب جمال ناصر نے قومیانے کا اعلان کیا تو فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کو آگے رکھ کے انیس سو چھپن میں نہر سویز پر دوبارہ قبضے کی ناکام کوشش کی۔ستر کے عشرے میں ایتھوپیا میں فوج کے ایک گروپ نے سوویت مدد سے ہیل سلاسی کی ڈھائی ہزار برس سے چلی آ رہی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔یہ درجنوں میں سے محض چند مثالیں ہیں۔

انیس سو تریسٹھ سے اب تک جو بائیس افریقی رہنما ہلاک ہوئے ان کے پیچھے سابق نوآبادیاتی طاقتوں کی بلاواسطہ مدد و تائید رہی۔

پھر اس کھیل میں نئے مہم جو بھی شامل ہوتے چلے گئے۔دو ہزار بیس میں مالی کے صدر ابراہیم باباگیڈا کا تختہ روسی کرائے کی ملیشیا ویگنار کی مدد سے الٹا گیا۔ مالی کے علاوہ سینٹرل افریقن ریپبلک، سوڈان اور لیبیا میں مدد کے عوض وینگنار کو معدنیات کے ٹھیکوں تک من پسند شرائط پر رسائی ملی۔

ویگنار کی مداخلت سے بہت پہلے کئی افریقی ریاستوں میں مغربی ممالک کی نجی پیشہ ور عسکری کمپنیاں براہ راست کسی افریقی ملک میں اتر کے مقامی فوجی دستوں کو زمامِ اقتدار تھمانے کی روایت قائم کر چکی تھیں۔

انیسویں صدی تک امریکا اور یورپ کے لیے افریقہ غلاموں کی پیداوار کا مرکز تھا۔جب غلاموں کی تجارت کا دور ختم ہوا تو پھر افریقہ پر براہ راست قبضہ کے بعد اس کی بندر بانٹ کر کے سامراجی طاقتوں کے درمیان معدنیات پر ہاتھ صاف کرنے کی ہوڑ لگ گئی۔

ان طاقتوں کے لیے بہت آسان ہے کہ مقامی سیاسی مافیا اور فوج میں سے کسی ایک یا دونوں کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر اس ملک کی معیشت چوس لی جائے۔لہذا نسخے میں جمہوریت اور عوامی خود مختاری کے علاوہ سب کچھ ہے۔

بھلے گورننس کی کمزوری کے سبب القاعدہ، داعش اور بوکو حرام جیسی انتہاپسند تنظیموں کو دبانے کے نام پر یہ کام ہو یا عوام کو کرپشن سے بچانے کے لیے ایک کرپٹ ٹولے کی جگہ دوسرے کرپٹ ٹولے کو بٹھانے ہٹانے کا کام ہو۔

لالچ کے اس خونی کھیل میں سوائے ایک عام افریقی کے سب ہی مقامی و غیر مقامی لٹیروں کی ہی حصے داری ہے۔اس دولت اور لوٹ کا حجم اور تخمینہ کیا ہے اور اس پر کیسے کیسے ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔یہ تذکرہ اگلی قسط میں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس