بلوچی شاعری کی مزاحمتی روایت : تحریر محمود شام


لکمیر ایک بہت بڑا ڈاکو تھا۔ وہ اکیلا ہی بڑے ڈاکے ڈالتا تھا۔ مگرکسی کو اپنا دوست نہیں بناتا تھا۔ ایک دفعہ لکمیرپہاڑوں میں سفر کررہا تھا کہ اسے آواز آئی۔ چلے جاؤ یہیں سے واپس چلے جاؤ نہیں تو تمہیں جان سے مار دیا جائے گا۔لکمیر نے حیران ہوکر سوچا کہ یہ کون ہے جو مجھے دھمکی دے رہا ہے۔ لوگ تو میرا نام سن کر کانپنے لگتے ہیں۔ مگر پتہ نہیں یہ اجل رسیدہ کون ہے۔ وہاں کھڑے ہوکر لکمیر نے اِدھر ادھر دیکھا کچھ دور بھیڑ بکریاں چر رہی ہیں۔ پھر اچانک اسے پتھر کے پیچھے ایک بندوق چمکتی ہوئی نظر آئی۔

لکمیر نے گرج کر کہا میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ شاید تم مجھے پہچاننے میں غلطی کررہے ہو۔ یہ میرا ہر روز کا راستہ ہے۔ میری آدھی رات کا راستہ میںہمیشہ اسی راستے سے جاتا ہوں۔ تم کون ہو۔؟ میرے سامنے آؤ۔جوابا آواز آئی میری طرف مت آنا میرے جسم پر کپڑے نہیں۔

(براہوئی لوک کہانیاں۔ مرتب: ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی۔براہوئی اکیڈمی(رجسٹرڈ) پاکستان کوئٹہ)

……..

لوک کہانیاں کسی بھی علاقے کی مقامی دانش کی ایک تصویر ہوتی ہیں۔ لوک کہانی کہیں کی بھی ہو۔ اس میں ان گنت انہونیاں ہونی ہوتی ہیں۔ نامعلوم راستے، تجسس، انتظار۔ یہ کہانی جس سے ہم نے اقتباس لیا ہے۔ یہ بھی ایک ایسے ہی تجسس کی کہانی ہے کہ اس چرواہی خاتون کیلئے لکمیر ڈاکو کپڑے لینے نکلتا ہے تو راستے میں کتنی حیرتیں اسکی منتظر ہوتی ہیں۔ نئے نئے کردار، ایک سے ایک طاقت ور،لیکن اللہ کی مرضی کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔آخر میں فتح حق کی ہوتی ہے۔ ظلم، جبر، سفاکی انسانی معاشرے کی ناگزیر کیفیات ہیں۔ ظالم وجابر حکمرانوں کو سینکڑوں خوشامدی مل جاتے ہیں۔ سہولت کار دستیاب ہوجاتے ہیں۔ جو وقتی فائدوں کیلئے اپنا ضمیر فروخت کردیتے ہیں ۔اپنے خواب بیچ دیتے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں۔ لیکن ہماری لوک کہانیوں میں مرکزی کرداروں کو بالآخر گوہر مقصود مل جاتا ہے۔ ایک طویل جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں ۔ بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا اور حالات حاضرہ پر سوال جواب۔ مملکت خداداد پاکستان کے حالات لوک کہانیوں جیسے ہوتے جارہے ہیں۔ ہم سب 23 کروڑ کی اس لوک کہانی کے کردار ہیں۔ ہم میں سے ہی کچھ حکمران ہیں۔ کچھ ڈاکو ہیں۔ کچھ چور ہیں۔ لوک کہانیوں اور دیومالائی داستانوں کے ڈاکو بہت خدا ترس ہوتے ہیں۔ مگر اکیسویں صدی کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی لوک کہانی میں خدا کا خوف عنقاہوچکا ہے۔ ایک سے ایک بڑا سفاک یہاں ہمارے نصیب میں ہے۔ بجلی کے بلوں کیخلاف احتجاج جاری ہے۔ نگراں حکومت اور سکے سہولت کار سب بے بس نظر آتے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے پاس ہے۔ ماہر معیشت وزیر خزانہ شمشاد اختر جن کا ایک زمانے میںبہت شہرہ اور دبدبہ تھا۔ اب وہ بھی بے بسی ظاہر کرچکی ہیں۔ خلق خدا۔ بجلی کے بلوں کی تپش سے ہی مضطرب تھی کہ پیٹرول ڈیزل کے بڑھے ہوئے نرخ بھی دندناتے ہوئے آگئے۔ ریاست ماں کے جیسی ہونی چاہئے تھی۔ یہ تو سوتیلی ماں سے بھی زیادہ کٹھور نکلی ہے۔ ماں جیسی ریاست کہاں سے ملتی۔ ان 23 کروڑ کو تو باپ بھی نہ مل سکا۔ ہماری لوک کہانی میں اب ایک فیصلہ کن موڑ آچکا ہے۔ خلق خدا بیدار ہوچکی ہے۔ اپنے حقوق کیلئے از خودسڑکوں پر نکل آئی ہے۔ اب سیاسی جماعتیں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتی ہیں۔

میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ پاکستان میں کیا پڑھا کیا لکھا جارہا ہے کا ہمارا سلسلہ اپنے مراحل طے کرتا ہوا اب آخری موڑ پر پہنچ رہا ہے۔ ہم پچھلے اتوار سے بلوچی اور براہوئی ادب کے ریگ زاروں میں چمکتے ذرے ڈھونڈ رہے ہیں۔ دشت ہمیں آواز دے رہے ہیں۔ صدیاں ہمارا ہاتھ تھامنے کو بے تاب ہیں۔

……..

1985 میں جواں سال بگٹی کی ایک نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجئے۔ انیسویں صدی کی اس شاعری میں آپ کو اکیسویں صدی کی ابتلا بھی نظر آئے گی۔

حیا اپنا رخت سفر باندھ کر چلی گئی ہے۔اب صرف کپڑے ہی آدمی کے جسموں پر رہ گئے ہیں۔

حیا رات کی تاریکی میں اپنا رخت سفرسمیٹ کر پیدل روانہ ہوگئی

صبح ہوئی تو شرم اور شعور اس کا سراغ لیکر روانہ ہوئے

بالآخر انہوں نے اپنی ساتھی حیا کو پالیا اور انہوں نے کہا کہ لوگ حرام کھا کھا کر سانڈ کی طرح موٹے ہوگئے ہیں۔ (بلوچی ادب کی تاریخ۔ 1947تا حال۔ مرتب: پناہ بلوچ۔ اکادمی ادبیات پاکستان)

بلوچی غزل کی اپنی کئی سو سالہ روایت ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ گل خان نصیر کے ذکرکے بغیر تو ہر نشست ادھوری رہ جاتی ہے۔ عطا شاد نے اردو بلوچی دونوں میں ایک منفرد مقام بنایا۔ ان دنوں عزت ابدال، پذیر جی ایم، بالاچ قادر، نبیل نود، مجیب آسکانی،اسماعیلآصف،عارف داد،عبیر پیر جان اپنی تخلیقی جہات سے دل فتح کررہے ہیں۔ نئے دور کے شعرا و شاعرات حمد،نعت،سلام، رباعی، دوگال، سانیٹ میں اپنے تخیل کو نظم کررہے ہیں۔ صوفی شاعری کے اپنے رنگ ہیں۔ مست توکلی کے عقیدتمندانہ اور سنجیدہ مطالعہ کے بغیر بلوچی کلاسیکل شاعری کاادراک نہیں ہوسکتا ۔ غزل اب بھی نئے شعرا کی مقبول صنف ہے۔ اس میں مزاحمت کی نئی نئی روایات قائم کی جارہی ہیں۔ ترقی پسندوں نے رومان اور مزاحمت کا جو امتزاج تخلیق کیا۔ وہ بلوچی میں بھی لائق تقلید ٹھہرا۔

بلوچ شعرائے کرام نے اپنے دور کے ہر آمر کو مزاحمت کا ہدف بنایا۔ اپنی دھرتی پر ہر حملہ آور اور ظالم کے خلاف جدو جہد نہ صرف تلوار کے ساتھ کی بلکہ ان کے خلاف اشعار کے ذریعے بھی اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ہر بلوچ شاعر اپنی روایات اور مٹی سے گہری وابستگی کے ناتے مزاحمتی ادب میں اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ پناہ بلوچ مزید لکھتے ہیں: بلوچی کلاسیکل دور کے بعد آزاد جمالدینی، میر گل خان نصیر، محمد حسین عنقا، سید ظہور شاہ ہاشمی، مراد ساحر، عطا شاد، عبدالرحمن پہوال اور عبدالمجید گوادری ابتدائی شعرا ہیں۔ نئی نسل کے نوجوان شعرا میں جی آرملا، مبارک قاضی، بشیر بیدر، اللہ بشک بزدار، ڈاکٹر فضل خالق، رزاق نادر، الفت نسیم کے نام قابل ذکر ہیں۔ عشاق کے قافلے رواں دواں ہیں۔ بہت سی تخلیقات شائع ہو رہی ہیں۔ کتابیں چھپ رہی ہیں۔ لیکن اصل شاعری وہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلتی ہے۔ اب اسے واٹس ایپ گروپ، فیس بک، انسٹا گرام میسر آ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سینکڑوں گروپ ہیں جو جدید بلوچی۔ براہوئی شاعری کو پورے بلوچستان۔ سارے پاکستان اور کل جہان میں پھیلا رہے ہیں۔ ابھی سلسلہ جاری ہے۔ بلوچی ناول اور افسانے کی بات بھی ہو گی۔ براہوئی ادب کی بھی۔ بلوچی براہوئی زبانیں ادبیات عالیہ سے مالا مال ہیں۔ بات ان سطور پر ختم کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں بھٹک گیا ہوں۔ کوئی پگڈنڈی نظر آ رہی ہے نہ راہگزر۔ خوف کے باعث قدم ڈگمگا رہے تھے۔ گرتے پڑتے آگے بڑھ رہا ہوں۔ (افسانہ۔ آصف یات بلوچ)

بشکریہ روزنامہ جنگ