بزرگوں کی کہی باتیں، عمر کے ہر حصے میں کام آتی ہیں۔ یہ باتیں تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ اس لئے کھری اور سچی ہوتی ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ بٹ گرام سے چلی ٹرالی، رسی ٹوٹنے پر ایک رسی کے سہارے دو بجے دن تک کھڑی رہی، پھر ہیلی کاپٹر ایک سے دو، پھر تین اور پھر چار ہوگئے۔ یوں شام کے 4بج گئے، اعلان ہوتا رہا کہ صبح تک ہیلی کاپٹر آئے گا تو آدھے گھنٹے میں کام ہوجائے گا۔ وہ آہی نہیں رہا تھاکہ رات نے پر پھیلانے شروع کیے۔ مقامی لوگ کہہ رہے تھے۔ ہم برسوں سے ایسے ہی ٹرالیوں، چارپائیوں سے لوگوں کو نکالتے رہے ہیں۔ آخر کو وہی ہوا۔ کسی سیانے کی بات چار و ناچار ماننا پڑی اور پھر رات 11بجے تک تمام بچے نکال لئے گئے ،سارے ملک کی دعاؤں اور مقامی سیانوں کی عقل اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ مرحلہ طے ہوا۔
سارے شہروں میں لاہور کے بلال گنج کی طرح نسل در نسل مستری کا ادارہ، ساری علمیت کے باوجود موجود ہے، مثلاً موبائل فون کے آتے ہی اس کو مرمت کرنے والے گلی گلی بغیر کسی نئی تربیت کے نظر آنے لگے۔ اس طرح گاڑیوں کی مرمت ہو کہ بجلی کے جدید آلات، یہ مستری اپنے انداز میں کسی کی گاڑی بدلتے ہیں۔ کسی کے پیچ، وہی کام بڑی دکانوں پر ہزاروں، سینکڑوں میں ہوتا ہے۔ وہ کبھی تو کھڑے کھڑے ٹھیک کردیتے ہیں۔ میں علم اور تربیت کی نفی نہیں کررہی۔ بلکہ یہ سمجھانے کی کوشش کررہی ہوں کہ اگر ہمارے نیم خواندہ مستریوں کے بچوں کو ہی شروع سے کام سکھایا جائے تو ’’چھوٹے‘‘ کا تصور ختم ہوجائے۔ کام سکھانے والے آزمودہ اور تھوڑا بہت پڑھے لکھے ہوں، وہ قلم بھی علم کے ساتھ فراہم کریں گے۔ مگر کوشش کون کرے۔ سارے ملک کے لوگوں کو پتہ ہے کہ واپڈا اور ریلوے والے بجلی کا بل نہیں دیتے کہ انہیں معاف ہے اور یہ بات 50برس سے معلوم ہے ،یہ بھی ساری عمر سے معلوم ہے کہ کراچی اور سندھ میں بعض علاقوں میںکنڈا ڈال کے بجلی مفت حاصل کرنے کی روایت ہے صرف یہ نہیں سارے حکمراں طبقوں ،جس میں جرنیل، ججز اور اعلیٰ افسران کے علاوہ صدر مملکت اور اسٹیٹ بینک کے سربراہ شامل ہیں، کو وہ مراعات حاصل ہیںجو کسی ملک کے صدر کو بھی حاصل نہیں۔ وہ سب تو دودھ کے دھلے ہیں۔ ان کیلئے مراعات اور ہمارے لئے مہنگائی۔ ساری مراعات کے باوجود 192جرنیل کینیڈا کی شہریت بھی حاصل کرچکے ہیں۔
ہر ایک نے دیکھا ہے کہ ہمارےہاں کیا، انڈیا، بنگلہ دیش کیا، سارے مشرقی چھوٹے چھوٹے ملکوں میں گلی گلی پکوڑے سے لیکر، مشروم اور مچھلی کی ساری اقسام، انگیٹھی پر بھون کر سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اب تو ہر طرح کے چینی کھانے،دفتروں کے پاس اور بریانی کے علاوہ دال چاول ہر ریڑھی پر میسر ہیں۔ ایک فیشن چلا ہے کہ گھروں کی خواتین بھی باقاعدہ ناشتے سے لیکر دونوں وقت کا کھانا آرڈر پر تیار کرکے فروخت کرتی ہیں۔ غریب عورتیں چونکہ فوڈ پانڈا کو استعمال نہیں کرتیں تو عموماً اسپتالوں اور گلی کے نکڑ پر دال کا پتیلا اور روٹیاں رکھ لیتی ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں ہر نکڑ پر عورتیں بیسنی روٹیاں ساتھ رائتہ، چٹنی، وہ بھی گھر کی بنی ہوئی رکھتی ہیں۔ دہلی میں جامع مسجد کے سامنے بے پناہ عورتیں اور مرد، ریڑھیوں پر کھانا فروخت کررہے ہوتے ہیں۔ میں نے خواتین سے پوچھا تمہاری اولاد کہاں ہے کہ شوہر تو پوریاں تل کر لارہا ہے۔ ان سب نے بتایا کہ وہ اسکول کالج گئے ہوئے ہیں۔ ہمارے سارے پہاڑی علاقوں میں بچے اسکول سے واپس آکر باپ یا ماں کے ساتھ کبھی پکوڑے تو کبھی بھٹے بھون رہے ہوتے ہیں۔
پورے ملک میں نوکری کی جگہ لوگ ڈھابے بنا رہے ہیں کہ نوکری میں تو رشوت کے علاوہ بہت محدود تنخواہ ہوتی ہے۔ یہاں اب ذکر ہوجائے، علاقوں کی میونسپلٹی اور کارپوریشن کا۔ وہ ان بے چاروں کی ریڑھیاں اٹھانے آجاتے ہیں، پھر واپس بھی مشکل سے کرتے ہیں۔ واپسی کا مطلب ہے کہ انکا مہینہ لگا دیا جائے اور جب آئیں تو انکی خدمت بھی کی جائے تو کام چلتا رہتا ہے۔ نگران حکومت تو ابھی تعلیم بالغا ںسے گزر رہی ہے۔
موٹر ورکشاپس پر بھی، بہت سے بیکار پھرتے نوجوانوں کو چابی بنانے سے لیکر پنکچر لگانے اور گاڑیوں کی مرمت کے لئے بہت سے ’’چھوٹے‘‘ روزانہ کے سو روپے مشکل سے تین ماہ بغیر تنخواہ کام سیکھنے کے بعد ہی ملتے ہیں۔ پاکستان میں خیرپور اور تھرپارکر کے علاوہ سوات کے گاؤں میں کھڈیوں پر خاندان کے خاندان، بوڑھے مرد عورتیں بھی کام کرتے ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کے علاوہ انڈونیشیا میں کھڈی پر ساڑھیاں اور دوپٹے بنانے کے علاوہ بوتیک کا کام فیکٹریوں کی سطح پر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں، اتنے ڈیزائنز آگئے ہیں۔ ان سب کے بے ڈھنگے کپڑے بھاری قیمت پر بیچنے کے سبب، ہر محلے میں عورتیں سادہ سوٹ بنارہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں سڑکیں نہیں، لوگ کشتی اور ڈولیوں کے ذریعہ دریا پار کرکے اسکول جاتے ہیں۔ وہاں 76برس میں سڑکیں اور اوور ہیڈ برج بھی نہیں، اسکولوں کی عمارتیں اور استاد بھی نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں تو بڑے ریٹائرڈ استادوں کے سرپر یہ کام چل رہا ہے۔
انڈیا، چاند پر پہنچ گیا اور ہم چاند کی بڑھیا کی کہانی بچوں کو سنا رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ انڈیا نے شو مارنے کو ایک دلت کو صدربنایا ہوا ہے مگر وہ بے چارہ کبھی کوئی فیتہ کاٹ دے تو بڑی بات ہے اور ہمارا ہر صدر، دو کشتیوں میں سوار رہتا ہے۔ بے آبروئی تو ہر وزیر کے کرتوت، اس کا مقدر ہوتے ہیں۔ ہر حکومت دو باتیں کہتی ہے۔ فوراً سارے مین ہول کے ڈھکن لگائے جائیں۔ دوسرے فوراً ریلوے کے پھاٹک لگائے جائیں۔ اتنا چھوٹا سا کام حکومتیں نہ کرسکیں تو چاند کو فتح کرنے کیلئے کیا ایٹم بم (جو ہمارے لئے بھوت بنا ہوا ہے) کا تحفظ کرنے کیلئے سارا بجٹ صرف کردیا جاتا ہے۔ (حب الوطنی والے ناراض ہونگے)
عدالتوں میں بھی یہ محاورہ کہ پرانا سودن اس لئے یاد آتا ہے کہ جسٹس دراب پٹیل، کیانی، کارنیلیئس کی مثالوں کے مقابلے میں آج کے ’’جاندی بہار‘‘ والے ججز کے کارنامے سےتوبہ بھلی۔ بہرحال پوری قوم بجلی کے بل جلاتے ہوئے پوچھ رہی ہے کہ ہم 76 برسوں میں ہر طرح کی حکومتوں کا ذائقہ، کھٹی ڈکار کی طرح بھگت چکے ہیں۔ اگر یہی لوگ دوبارہ آئیں گے تو کونسا نیا بھاڑ جھونکیں گے۔ غلام قوم کو سوال کرنے کا حق ہے کہ نئے آرڈیننس میں وہ بھی گیا؟۔
بشکریہ روزنامہ جنگ