اُس مسلم ریاست کی افادیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں یہ چھٹا اہم نکتہ بیان کیا کہ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان ہندوستان کے جسدِ سیاسی کے اندر رَہ کر اَپنی نشوونما اور اِرتقا کے لیے آزادانہ قدم اٹھا سکیں، تو وہ تمام بیرونی حملوں کا بہترین دفاع کر سکیں گے، خواہ یہ حملے سنگینوں کے ذریعے ہوں یا افکار کی طاقت کے بَل بوتے پر۔ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی 56 فی صد ہے جبکہ عساکرِ ہند میں اُن کی تعداد 62 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ اِس سے آپ اُن کی عسکری صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو شمال مغربی ہندوستان کی مسلم آبادی کے اندر موجود ہیں جو پورے ہندوستان کو غیرملکی چیرہ دَستیوں سے محفوظ و مامون رکھ سکتی ہیں۔ مَیں یہ بھی عرض کروں گا کہ مسلم ریاست کے قیام کا مدعا صرف اِس قدر ہے کہ مسلم آبادی اپنی ترقی کی راہ میں آزادی سے قدم بڑھا سکے۔ یہ اُس مرکزی حکومت کے تحت ممکن نہیں ہو گا جو ہندو قوم پرست اربابِ سیاست محض اِس لیے قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ دوسری اقوام پر ہمیشہ کے لیے اُن کا غلبہ قائم ہو جائے۔اِسی کے ساتھ علامہ اقبال اِس نہایت اہم ساتویں حقیقت پر زور دَیتے ہیں کہ ہندوؤں کے دل میں اِس قسم کا خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ آزاد مسلم ریاست کے قیام سے ایک مذہبی ریاست قائم ہو جائے گی، کیونکہ اسلام کے اندر سرے سے کوئی کلیسائی نظام ہے ہی نہیں، بلکہ یہ ایک ریاست ہے جس کا اظہار فلسفی روسو سے بہت پہلے ایک ایسے وجود میں ہوا جو معاہدہ عمرانی کا پابند تھا۔ ریاستِ اسلامی کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے۔ اُ س کا عقیدہ ہے کہ انسان شجر اور حجر کی طرح ایک خاص زمین سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک زندہ جزو کی حیثیت سے چند واضح فرائض و حقوق کی مالک ہے۔ مَیں صرف ہندوستان اور اِسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں تاکہ اُس سے ہندوستان کے اندر طاقت کا توازن پیدا ہونے سے امن و امان قائم رہے اور اِسلام کو اِس امر کا موقع ملے کہ وہ اُن اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اُس پر حاوی ہیں اور اُس جمود کو توڑ ڈالے جو اُس کی تہذیب، تمدن، شریعت، تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اِسی طرح اُن کے صحیح معانی کی تجدید بھی ہو سکے گی اور ہم زمانۂ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔خطبہ الہ آباد میں اِس آٹھویں فکرانگیز نکتے پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی کہ کیا واقعی مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے اور کیا ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو گا جو مغرب میں عیسائیت کا ہو چکا ہے۔ یہ سوال ہندوستان میں اور بھی زیادہ اَہمیت رکھتا ہے کیونکہ آبادی کے اعتبار سے ہم اقلیت میں ہیں۔ یہ دعویٰ کہ مذہبی تعلق محض انفرادی اور ذاتی رواج پر مبنی ہے، اہلِ مغرب کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یورپ کے نزدیک عیسائیت کا تصور یہی تھا کہ وہ مذہب محض رہبانیت ہے جس نے مادی دنیا سے منہ موڑ کے اپنی تمام تر توجہ آخرت پر جما لی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مذہبی واردات جن کا اظہار قرآن پاک میں ہوا ہے، عیسائی تصوّر سے سراسر مختلف ہیں۔ یہ محض حیاتی نوع کی واردات نہیں بلکہ اُن کا تعلق صاحبِ واردات کی داخلی ذات سے بھی ہے اور خارجی سے بھی۔ یہ وہ اِنفرادی واردات ہیں جن سے بڑے بڑے اجتماعی نظامات کی تخلیق ہوئی ہے اور جن کے اوّلین نتیجے سے ایک ایسے نظامِ سیاست کی بنیاد پڑی ہے جس کے اندر قانونی تصوّرات مضمر ہیں۔ اُن کی اہمیت محض اِس لیے نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اُن کی بنیادوحی اور اِلہام پر ہے۔اِس اعتبار سے اسلام کا مذہبی نصب العین اِس کے معاشرتی نظام سے کسی طرح الگ نہیں جو خود اِس کا پیداکردہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک تصوّر کو چھوڑا، تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہو گا جو اِسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی کرتا ہو۔ یہی وہ بڑا مسئلہ ہے جو آج مسلمانانِ ہند کے سامنے ہے۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں ایک معروف فرانسیسی عالم ارنسٹ رینان کا قول نقل کیا کہ ’’انسان نسل کی قید گوارا کر سکتا ہے نہ مذہب کی۔ دریاؤں کا بہاؤ اُس کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے نہ پہاڑوں کی سمتیں اُس کے دائرے کو محدود کر سکتی ہیں۔ اگر صحیح الدماغ انسانوں کا ایک زبردست اجتماع موجود ہے اور اُن کے دلوں میں جذبات کی گرمی ہے، تو اُنہی کے اندر وُہ اَخلاقی شعور پیدا ہو جائے گا جسے ہم لفظ ’قوم‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے اِس قسم کی ترکیبِ اجتماع سے انکار نہیں۔ اِس کا مطلب ایک فرد کی زندگی کو عملاً ایک نئے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد ذَاتوں میں اِس قسم کا کوئی رحجان موجود نہیں کہ وہ اَپنی انفرادی حیثیت کو تبدیل کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں، اگرچہ ہندوؤں کا ایک مجموعہ مضطرب ہے کہ اُس کی اجتماعی ہیئت قائم ہو جائے مگر وہ اَخلاقی شعور جو کسی تخلیقی عمل کے لیے ناگزیر ہے، ایک ایسی عظیم قربانی کا طالب ہے جس کے لیے ہندوستان کی کوئی بھی جماعت آمادہ نہیں۔علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں اِس تشویش ناک صورتِ حال پر دانش مندانہ انداز میں اظہارِ خیال کیا جو مغربی افکار کی یلغار سے ہندوستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کے اندر پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی خواہش ہے کہ وہ اِن افکار کو عملاً اپنی زندگی کا جزو بنا لیں مگر اُنہوں نے اِس امر پر مطلق غور نہیں کیا کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کے تحت اِن افکار نے مغرب میں نشوونما پائی تھی اور مرکزیت سے محروم ہو گئے تھے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ