بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کےلئے زندگی کی آخری سانسوں تک ۹۲ سال کی ضعیف العمر ی کے باوجود بھی جدو جہد کرنے والے قائد حریت کشمیر اور بطل جلیل سید علی گیلانی کا یکم ستمبر کو دوسرا یوم شہادت ہے۔اس موقع پر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی کی جدوجہد کے اس عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے بڑی تیاریاں کی جارہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں جہاں کل جماعتی حریت کانفرنس، کشمیری عوام کو ان کے گاؤں اور شہادت گاہ حیدر پورہ کی طرف مارچ کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں، جہاں بھارتی قابض فوجوں نے ان کے جس خاکی کو رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کر دیا تھا، وہیں پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی ان کو ان کی جدو جہد کشمیر کےلئے کئی عشروں تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور جہد مسلسل پر ان کو بھرپور خراج تحسین پیش کریں گے۔لیکن
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس سلسلے میں کیا تیاریاں کی جارہی ہیں اور ان تیاریوں میں کیا پیغام دیا جارہا ہے وہ بڑا افسوسناک اور تشویش ناک اور دل شکن ہے جس کو وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات کی نااہلی، کم فہمی اور کشمیریوں کی ۹۳ سالہ جدوجہد آزادی سے مکمل لاعلمی کا کھلا ثبوت قرار دیا جا سکتاہے۔ان تیاریوں کا پول ہمارے ایک کشمیری دانشور اور جدوجہد کشمیر کے ایک مجاہد انعام مسعودی نے اپنے ایک وی لاگ میں بڑے دکھ بھرے انداز میں پیش کیا ہے جس کو ہم ان کی زبانی پیش کررہے ہیں وہ “ Imam Masoodi is feeling disappointed in Islamabad کے کیپشن کے ساتھ کہتے ہیں کہ “ ایک منٹ مجھے تھوڑا سا پانی لینے دیں تا کہ میں اپنی Frustration (پریشانی )اور Anxiety (تشویش ) کو کچھ calm down ( کچھ کم ) کر سکوں۔السلام علیکم جی! بہت معذرت کہ شروع ہی میں مجھے یہ انداز اختیار کرنا پڑا۔بات ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے بڑا دھچکا لگا اور دکھ محسوس ہوا تو میں نے مناسب سمجھا کہ جلدی سے کسی جگہ پہنچوں اور جو تشویش ہے وہ آپ تک پہنچاؤں تا کہ اس کے نتیجے میں کوئی تاثر قائم ہوسکے۔
بات یہ ہے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ دو دن بعد سید علی گیلانی علیہ رحمت کا دوسرا یوم شہادت ہے میں اپنے ایک دوست کو ڈپلومیٹک انکلیو میں چھوڑنے گیا، وہاں جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سید علی گیلانی کے ( یوم شہادت ) حوالے سے ہورڈنگز،سائن بورڈز اور بینرز وغیرہ لگے ہوئے ہیں۔ خوشی محسوس ہوئی لیکن بڑی شدت سے کمی بھی محسوس ہوئی کہ ان پر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے۔وہ کوئی خاص نہیں،عام سا موادہے، عام سا سلوگن ہے جس لیول کی وہ شخصیت ( سید علی گیلانی) تھے اس لیول کا مواد یا تحریر مجھے وہاں نظر نہیں آئی،جس سے شدید مایوسی ہوئی۔ بڑی تشویش ہوئی کہ کنونشن سنٹر کے باہر ایک گلوب ( دنیا کا نقشہ) لگا ہوا ہے۔گلوب ذرا سا (Tilt)جھکا ہوا ہونا چاہیئے لیکن کسی وزراعظم کے کہنے پر اسے سیدھا بنایا گیا۔اس کے سامنے جو ہورڈنگ تھا، اس پر سید علی گیلانی کی تصویر کے ساتھ جو کچھ لکھا ہوا تھا اس پر مجھے تشویش ہوئی اس پر انگریزی میں لکھا تھا” The man who hated India” ( اس شخص نے انڈیا سے نفرت کی ) او بھائی! آپ کو علی گیلانی کو ( ان کی جدو جہد آزادی کو اجاگر کرنے کے بجائے ) انڈیا سے نفرت کرنے والا دکھا کر کیا ملے گا؟ وہ شخص (علی گیلانی) جس نے اپنی زندگی کی ۶۰ بہاریں قید و بند کی صعوبتوں میں گزاریں۔ ۹۰/۸۰سال کی عمر میں وہ کشمیر کی آزادی کےلئے لڑتا رہا،کبھی ایک بار بھی اس نے اپنے ہاتھ میں گن نہیں اٹھائی،کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔انہوں نے مزاحمت کی آر ایس ایس مائنز سیٹ کے ساتھ،
انہوں نے فوج کے ساتھ مزاحمت کی۔انہوں نے کشمیریوں کو سیاسی اور سماجی جدو جہد کےلئے ابھارا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ( مقبوضہ کشمیر ) اسمبلی کے ممبر رہے۔انہوں نے ( جدوجہد آزادی کےلئے ) جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔آخر جب کشمیری قوم مجبور ہوگئی تب بھی انہوں نے کسی بے گناہ کے خون کو اسپورٹ نہیں کیا۔آپ انہیں ایک نفرت کرنے والے کے طور پر متعارف کرارہے ہو۔یہ آپ کا لیول ہے۔وزارت خارجہ میں بیٹھے ہوئے لوگو، وزارت اطلاعات میں بیٹھے ہوئے لوگو۔(یہ آپ نے کیا کیا ہے )۔ اس سے بڑھ کر اور دکھ کیا ہے کہ آپ ان ہورڈنگز لگانے کا پیسہ ہمارے ٹیکسوں سے کلیم کریں گے کہ ہم نے سید گیلانی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں۔مجھے ایک کشمیری کی حیثیت سے دکھ اس لئے بھی ہو رہا ہے کہ آپ ہم کشمیریوں کے نام پر اتنے پیسے کلیم کریں گے کہ “ جناب ہم نے علی گیلانی کے نام پر یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے” خدا کےلئے اپنی حماقتوں کی یہ داستان بند کرو، بہت ہوگئی ہے آپ کو کوئی کام ڈھنگ کا کرنا نہیں آتا تو کسی ماہر سے مشورہ کر لو ہم جیسے والنٹیئر ( رضا کار) سے جو میڈیا منصوبہ بنانے کے طالب علم ہیں، سے مشورہ کر لیتے ہم رضاکارانہ طور پر Campaign ڈیزائین کرنے کا طریقہ بتا دیتے۔ خدا کے کےلئے رحم کھائیں۔میں آخر میں اپیل کرتا ہوں ان بااثر لوگوں اور ٹی وی اینکرز سے، جن کی آواز سنی جاتی ہے ، ایسے مواقع پر کشمیر کے نام پر جو کچھ بھی کیا جارہا ہو، اس کو دیکھیں، سنیں اور اس Campaign کو درست کرنے کےلئے اپنی آواز فیصلہ کرنے والوں تک پہنچائیں۔”
کتنی مایوسی اور دکھ بھرا ہواہے ہمارے کشمیری دانشور کی ان باتوں اور اپیل میں کہ ہم پاکستانی جن کو سید علی گیلانی اپنا وطن قراردیتے رہے اور کہتے رہے کہ کشمیر پاکستان کا فطری حصہ اور اس کی شہ رگ ہے جس کے پرچم کو پاکستان کے یوم آزادی اور یوم قراداد پاکستان کے موقع پر بلند کرتے رہے اور کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق اور آزادی کےلئے پوری عمر جدوجہد کرتے رہے اور جس پاکستان کے پرچم کے ساتھ والہانہ عشق کرتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کردی اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دلوانے کی خاطر مجموعی طور پر ۲۹ سال سے زیادہ پس دیوار زنداں رہنا پسند گیا۔ان کے بارے میں یہ جملہ لکھ کر ان کو محض انڈیا سے نفرت کرنے والا بنا کر پیش کیا جائے۔اس سے بڑا ظلم اور زیادتی سید علی گیلانی جیسے بطل حریت اور مجاہد آزادی کے ساتھ اور کیا ہو سکتی ہے۔اب بھی وقت نہیں گیا۔وزیر اعظم انوالحق کاکڑ، وزیر خارجہ سید جلیل عباس جیلانی، وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنکی اور وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات کے کرتا دھرتا بابوؤں سے ہماری اپیل ہے کہ وہ اس Campaign میں دیئے گئے غلط پیغام کو درست کریں اور سید گیلانی جیسے آزادی کے لئے زندگی بھر جدو جہد کرنے والے عظیم حریت پسند لیڈر کے شایان شان خراج عقیدت پیش کریں اور اس طرح کے گھٹیا جملے لکھ کر انڈیا کو ہم پاکستانوں کا مذاق اڑانے کا موقع نہ دیں۔