آزاد کشمیر میں ہائیڈل جنریشن خاص طور پر منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی موجودہ فی یونٹ پیداواری لاگت 2 یا 3 روپے ہے۔ اس بجلی کا واپڈا کے نیشنل گرڈ سے ‘الحاق پاکستان’ کروایا جاتا ہے پھر یہ واپس آزاد کشمیر کو 22 روپے فی یونٹ بیچی جاتی ہے۔۔جبکہ پاکستان میں پرائیویٹ پاور پراجیکٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 60 روپے فی یونٹ سے تجاوز کر رہی ہے۔بلکہ وہ بجلی پیدا نہ بھی کریں انہیں پھر بھی ان کی پوری پیداواری استعداد کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے جن کو اس وقت حکومت نے 3کھرب روپے ادا کرنے ہیں۔جبکہ تقریبا” 500 ارب روپے کی ماہانہ بجلی چوری ہوتی ہے اور 13ارب روپے کی مفت بجلی دی جاتی ہے۔یہ ساری کھرب ہاء روپیہ کی ڈکیتی پاکستان کے عوام کے بجلی کے بلوں میں ڈال کر انہیں خود کشیوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر سے پیدا ہونے والی بجلی اگر پاکستان کے کروڑوں غریبوں کے گھر روشن کرتی تو شاید آزاد کشمیر کے لوگ اسے ہضم بھی کر لیتے لیکن اگر آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی پاکستان کے مقتدر استحصالی طبقات کی لوٹ مار کیلئے اور ان کے پیٹ بھرنے کیلئے استعمال ہو رہی ہے تو پھر آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ سوال اٹھانے کا حق ہے کہ سر زمین کشمیر پر پیدا ہونے والی بجلی ڈکیت طبقات کی جیبیں بھرنے کیلئے کیوں استعمال کی جا رہی ہے؟ کسی بھی خطے میں موجود قدرتی وسائل کا استفادہ وہاں کے عوام کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 10 میں اللہ پاک کا حکم ہے کہ زمین میں اللہ پاک کی جانب سے عطا کردہ تمام قدرتی وسائل پر اس خطہ پر رہنے والے لوگوں کا برابر کا حق استفادہ ہے، یعنی ان وسائل کو چند سرمایہ داروں کو لوٹنے کیلئے نہیں دیا جا سکتا۔ ۔سورہ حشر کی آیت نمبر 7 میں یہ پابندی بھی لگائی گئی ہے کہ کسی ریاست کی دولت کو صرف سرمایہ داروں کے درمیان ہی گردش نہیں کرنا چاہیئے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانین اور آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 بھی ہر قسم کے قومی اور انسانی وسائل کے استحصال کو ممنوع کرتا ہے ۔ اور آزادکشمیر کے لوگوں کا بھی صرف یہی مطالبہ ہے کی آزاد کشمیر کا بڑا قدرتی وسیلہ جو ہائیڈل جنریشن ہے جس سے سالانہ کھرب ہاء روپے کی بجلی پیدا ہو رہی ہے یہ ساری دولت مقتدر ڈکیت طبقات کے حوالے کرنے کے بجائے آزادکشمیر کی دھرتی پر پیدا ہونے بجلی سے 400 میگاواٹ بجلی، اس وقت فی یونٹ کی پیداواری لاگت کے حساب سے آزاد کشمیر کے لوگوں کو مہیا کی جائے۔ اور اسے پاکستان کے استحصالی طبقات کی ڈکیتیوں میں بھتہ خوری کے لئے بند کیا جائے۔ ریاست، قومی وسائل پر لوگوں کے حقوق غصب کرکے سرمایہ داروں کو نوازنے کیلئے نہیں بنتی بلکہ قومی وسائل کے حقوق لوگوں تک پہنچانے کیلئے ایک معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں معرض وجود میں آتی ہے۔ اگر ریاست یہ ذمہ داری پوری نہ کرے تو اپنی جوازیت کھو دیتی ہے۔بجلی کے ظالمانہ بلات پر احتجاج میں آزاد کشمیر کے لوگوں کو پاکستانی بھائیوں سے مل کر پاکستان کی ظالم مقتدر اشرافیہ کی پالیسیوں کے خلاف مشترکہ تحریک چلانی چاہئیے اور اس تحریک کو آزاد کشمیر بمقابلہ پاکستان نہیں بنانا چاہئے۔ آزاد کشمیر میں بجلی سے متعلق درج ذیل اھم ترین معاملات آزاد کشمیر حکومت کو فوری طور پر خود حل کرنا چاہیئے اور دیگر معاملات حکومت پاکستان سے اٹھانا چاہئے۔جن کی تفصیل یہ ہے۔۔ 1) منگلا (میرپور) ڈیم گرڈ سے براہ راست 400 میگا واٹ بجلی اس ریٹ پر آزاد کشمیر کو مہیا کی جائے جو منگلا پاور ہاوس میں بجلی کی فی یونٹ پیداوار پر رواں اخراجات آرہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں رائج ٹیرف کا انرجی مکس کا فارمولا آزاد کشمیر پر لاگو کرنے کی کوئی جوازیت نہیں ہے۔ 2۔۔۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 157 اور 161 کے تحت آزاد کشمیر میں واپڈا کے زیر انتظام تمام بجلی گھروں بشمول پرائیویٹ پاور پراجیکٹس سے خالص منافع (نیٹ ہائیڈل پرافٹ /واٹر یوز چارجز ) ، ان پن بجلی کے پراجیکٹس کی آمدنی سے ، آزاد کشمیر حکومت کو ادا کیا جائے۔ 3۔ آزاد کشمیر حکومت آزاد کشمیر کےعوام کے بجلی کے بلات سے تمام غیرقانونی اور بلا جواز چارجز جو فیول ایڈجسٹمنٹ،اور کئی قسم کے بلا جواز ٹیکسز کی صورت میں لاگو ہیں، انہیں بذریعہ نوٹیفکیشن فوری ختم کیا جائے۔ 4۔ آزاد کشمیر حکومت کے زیرانتظام پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ سے منقطع کر کے آزادکشمیر کے علاقوں کو براہ راست مہیا کی جائے۔یہ بجلی 90 پیسے فی یونٹ واپڈا خریدتا ہے اور اب 22 روپے یونٹ آزاد کشمیر کو واپس بیچتا ہے۔ 5۔آزاد کشمیر حکومت نے واپڈا سے بجلی کا ٹیرف بڑھانے کا اگر کوئی معائدہ کیا ہے تو اسے بھی بالا وجوہات کی بنیاد پر فوری منسوخ کیا جائے۔ 6۔ مہاراجہ کے دور میں نہر اپر جہلم سے پنجاب کا زرعی علاقہ سیراب ہوتا تھا اس کا آبیانہ کشمیر حکومت کو ملتا تھا جو قیام پاکستان کے بعد بند ہو گیا ہے ۔اس پانی کی آبیاری سے پنجاب کی زراعت کو سالانہ 1000 ارب روپے سے زیادہ اقتصادی فائدہ ہو رہا ہے۔۔ اس پانی کا آبیانہ دوبارہ آزاد کشمیر حکومت کو بمعہ بقایاجات ادا کیا جائے۔ 7۔۔منگلا ڈیم معائدے کی روشنی میں منگلا جھیل سے میرپور/بھمبر میں آبپاشی اور پینے کیلئے پانی مہیا کیا جانا تھا اس پر عملدرآمد کروایا جائے۔۔ 8۔رٹھوعہ ہریام برج میرپور کا کام مکمل کیا جائے۔ 9- نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کا معائدہ کیا جائے۔اس سےنیٹ ہائیڈل پرافٹ آزاد کشمیر حکومت کو ادا کیا جائے اور مظفرآباد میں اس کے environmental impact کا سد باب کیا جائے۔ 10.آزاد کشمیر میں چائینیز اور کورین کمپنیوں سمیت تمام پرائیویٹ ہائیڈل جنریشن کمپنیوں کی مالی مانیٹرنگ کا بندوبست کیا جائے جو یہاں سے تقریبا” 2 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ آزاد کشمیر کے قدرتی وسائل جو آزاد کشمیر کے لوگوں کے حق ملکیت ہیں لیکن آزاد کشمیر کے لوگوں کو محروم کر کے انہیں جو نئی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ان پراجیکٹس سے ماہوار اور سالانہ کتنی لوٹ مار ہو رہی ہے؟ اور آزاد آزاد کشمیر کے لوگوں کو ان کےملکیتی قدرتی وسائل سے کیا مل رہا ہے؟۔
Load/Hide Comments