اسلام آباد کی ایک مشہور شاہراہ کا نام خیابان سہروردی ہے۔یہ شاہراہ دراصل حسین شہید سہروردی سے منسوب ہے جنہوں نے 9اپریل 1946ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ دہلی میں متحدہ بنگال کے وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ قرارداد پیش کی کہ بنگال اور آسام کو بھی پاکستان میں شامل کیا جائے گا۔قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد انہوں نے عوامی لیگ بنائی اور 1956ء میں وہ ایک سال کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔1962ء میں جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت نے سہروردی صاحب کو غدار قرار دیکر گرفتار کر لیا ۔یہ گرفتاری ایک ایسے فوجی ڈکٹیٹر کے حکم پر ہوئی جو 1947ء میں برطانوی حکومت کا تنخواہ دار ملازم تھا جبکہ سہروردی نے برطانوی حکومت کی خواہش پر بنگال کو ہندوستان میں شامل کرنے کی بجائے پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے باعث بنگال تقسیم ہوگیا۔ قائداعظم ؒکے پاکستان میں حسین سہروردی کو غدار قرار دیکر گرفتار کیا گیا تو انہوں نے جیل سے جنرل ایوب خان کے نام ایک خط لکھا ۔اس خط میں انہوں نے اپنے سابقہ ماتحت کو یاد دلایا کہ جب آپ آرمی چیف اور میں وزیراعظم تھا تو اس وقت آپ نے میری حب الوطنی پر سوال کیوں نہیں اٹھایا؟ آپ نے جو کچھ اخبارات کو میرے بارے میں کہا وہ ان وجوہات سے مختلف ہے جو آپ نے مجھے تحریری طور پر مہیا کی ہیں۔آپ نے میرے وزیراعظم بننے سے پہلے کے زمانے میں سے میری پاکستان دشمنی کو برآمد کرنے کی کوشش کی ہے ۔آپ نے الزام لگایا ہے کہ میرے پاکستان مخالف عناصر کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن آپ نے ان پاکستان مخالف عناصر کی نشاندہی نہیں کی ۔آپ مجھ پر ملک توڑنے کا الزام لگا رہے ہیں ۔حالانکہ میں پاکستان کے اتحاد پر یقین رکھتا ہوں ۔سہروردی نے لکھا کہ پاکستان میرا ملک ہے کوئی پناہ گاہ نہیں۔میں نے یہاں سیاسی پناہ نہیں لی تھی بلکہ میں قائد اعظم ؒ اور لیاقت علی خان کی طرح ایک مہاجر ہوں اور ان لاکھوں مہاجروں میں سے ایک ہوں جو قائد اعظمؒکی ضمانت پر پاکستان آئے۔ آگے چل کر خط میں سہروردی صاحب نے جنرل ایوب کو بتایا کہ آپ نے مجھے پاکستان کے خلاف کسی سازش کے الزام میں گرفتار نہیں کیا بلکہ آپ نے مجھے اس لئے گرفتار کیا ہے کہ جو نیا دستور آپ نافذ کرنے والے ہیں اس کو میں قبول نہیں کروں گا ۔آپ جانتے ہیں کہ عوامی لیگ زرعی اصلاحات کی حامی ہے میں نے مشرقی پاکستان میں مزارعین کے حقوق کیلئے طویل جدوجہد کی ہے اور اسی لئے مغربی پاکستان کے بڑے جاگیردار میرے خلاف ہیں ۔سہروردی نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ آپ مجھے بھارت کا ایجنٹ قرار دے رہے ہیں حالانکہ مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے نے اعتراف کیا تھا کہ وہ گاندھی کے بعد مجھے بھی قتل کرنا چاہتا تھا۔ سہروردی نے لکھا کہ کلکتہ کے انتہا پسند ہندو مجھے کئی دفعہ قتل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں پھر میں ان کےساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کیسے سازش کر سکتا ہوں؟ آخر میں سہروردی نے لکھا کہ آج مجھے اپنی حب الوطنی کا دفاع کرتے ہوئے بڑی شرم محسوس ہو رہی ہے۔
حسین شہید سہروردی کا جیل سے لکھا جانے والا یہ خط بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’حسین شہید سہروردی ۔اے بائیو گرافی‘‘ میں شامل کیا ہے ۔سہروردی صاحب 1956ء کے آئین کی بحالی چاہتے تھے اور جنرل ایوب خان 1962ء میں صدارتی نظام نافذ کرنے کی تیاری میں تھے ۔ان کے بنگالی وزیر قانون جسٹس (ر) محمد ابراہیم نے بھی اس صدارتی آئین کی مخالفت کی اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔پھر فوجی ڈکٹیٹر کو جسٹس محمد منیر مل گئے انہیں وزیر قانون بنا کر پاکستان پر ایک صدارتی آئین نافذ کر دیا گیا اور یہی آئین پاکستان کو توڑنے کی اصل وجہ بنا۔ صدارتی آئین نافذ کرنے کے بعد جنرل ایوب خان مشرقی پاکستان گئے تو جگہ جگہ سہروردی کی رہائی کیلئے مظاہرے کئے گئے ۔شدید عوامی دباؤ کے بعد سہروردی صاحب کو رہا کیا گیا۔وہ اپنے علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے اور وہاں پراسرار حالات میں انتقال کر گئے ۔
پاکستان کے ایک اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی نظام کی حمایت کر دیتے تو موت کی سزا سے بچ سکتے تھے۔جب جنرل ایوب خان نے پاکستان پر صدارتی نظام نافد کیا تو بھٹو اس فوجی حکومت کا حصہ تھا۔انہوں نے صدارتی نظام کی تباہی کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔1967ء میں انہوں نے جنرل ایوب خان کی حکومت سے استعفیٰ دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔انہوں نے 1971ء کے فوجی آپریشن کی حمایت کی، بھارت کی حراست سے ہزاروں جنگی قیدیوں کو رہا کرایا اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی شروع کیا لیکن جنرل ضیاءالحق نے انہیں عدالت کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا ۔بھٹو صاحب نے جیل میں دو کتابوں اور اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام طویل خط کے علاوہ کچھ بیانات بھی قلم بند کئے جو عدالت میں پیش کئے گئے۔6مارچ 1978ء کو انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنا بیان داخل کیا جو انہوں نے جیل میں خود لکھا تھا یہ طویل بیان بھی دراصل جنرل ضیاء الحق کے نام ایک خط ہے اور اس بیان کو پاکستان پیپلز پارٹی 1979ء کے بعد کئی دفعہ ایک کتاب کی شکل میں شائع بھی کر چکی ہے ۔حال ہی میں بشیر ریاض صاحب نے ’’میرا پاکستان ‘‘ کے نام سے یہ کتاب دوبارہ شائع کی ہے ۔اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹونے یہ انکشاف کیا کہ 28اگست 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے جنرل فیض علی چشتی کی موجودگی میں میرے ساتھ ایک طویل ملاقات کی اور کہا کہ آپ جیسے ذہین اور تجربہ کار شخص نے پارلیمانی نظام کیوں قبول کرلیا؟جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ مجھے ایک ایسے نظام کا نقشہ بنا کر دیں جو پاکستان میں چل سکے۔ دوسرے الفاظ میں جنرل ضیاء چاہتا تھا کہ بھٹو صاحب 1973ء کے آئین کی جگہ دوبارہ صدارتی نظام لانے پر رضامندی ظاہر کردیں۔ بھٹو صاحب جان بچانے کیلئے 1973ء کے آئین کی قربانی دے سکتے تھے لیکن انہوں نے جنرل ضیاء کے سامنے انکار کر دیا اور پھانسی کے تختے پر لٹک گئے بھٹو صاحب نے پھانسی کا پھندا چوم کر اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کر دیا لیکن پاکستان کے سیاستدان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں۔
سب سیاست دانوں کو پتہ تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ سب سیاست دان جانتے تھے کہ وہ نجی محفلوں میں پانچ ہزار افراد کو پھانسی پر لٹکانے کی خواہش کا بار بار اظہار کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر باجوہ کو 2019ء میں ایکسٹینشن دی اور اسی ایکسٹینشن نے وہ بحران پیدا کیا جس سے آج پاکستان دوچار ہے۔ بحران کا واحد حل آئین میں دی گئی مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ہے لیکن جمہوریت کے کچھ چمپئن انتخابات سے فرار چاہتے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرکے رہائی کا حکم دے دیا ہے لیکن انہیں ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ عمران خان کے کچھ مخالفین بھی جیل جانے والے ہیں۔ یہ سیاست دان کتنے ہی کمزور ہوں لیکن آخر میں یہ جیت جاتے ہیں تاہم ان کی جیت کی قیمت پاکستان کے عوام ادا کرتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ